ایسی کئی شامیں
ابھی سرد بوجھل ہوا جی اٹھے گی
ابھی ناریل کے درختوں پہ، ساحل پہ
چھا جائے گا اک نشیلا اندھیرا
معطّر لبوں، مدھ بھری دھیمی باتوں
کے انبوہ ہر سمت آوارہ ہوں گے
ابھی آرزوؤں کے بے حرف کتبے
اُبھر آئیں گے
بے گل و برگ یادوں کی اجڑی ہوئی بستیوں سے
یہیں تیرگی میں،
مَیں چپ چاپ گزرے زمانوں کی قبروں کو گنتا رہوں گا
بہت دور۔۔۔ ظلمت کے قاصد ستارے چمکتے رہیں گے
Similar Threads:



Attention Guest, if you are not a member of Urdu Tehzeb, you have 1 new private message waiting, to view it you must fill out
Reply With Quote

Bookmarks