Umda Intekhabحذر کرو مرے تن سے
سجے تو کیسے سجے قتلِ عام کا میلہ
کسے لبھائے گا میرے لہو کا واویلا
مرے نزار بدن میں لہو ہی کتنا ہے
چراغ ہو کوئی روشن نہ کوئی جام بھرے
نہ اس سے آگ ہی بھڑکے نہ اس سے پیاس بجھے
مرے فگار بدن میں لہو ہی کتنا ہے
مگر وہ زہرِ ہلاہل بھرا ہے نس نس میں
جسے بھی چھیدو ہر اِک بوند قہرِ افعی ہے
ہر اک کشید ہے صدیوں کے دردو حسرت کی
ہر اک میں مُہر بلب غیض و غم کی گرمی ہے
حذر کرو مرے تن سے یہ سم کا دریا ہے
حذر کرو کہ مرا تن وہ چوبِ صحرا ہے
جسے جلاؤ تو صحنِ چمن میں دہکیں گے
بجائے سرو و سمن میری ہڈیوں کے ببول
اسے بکھیرا تو دشت و دمن میں بکھرے گی
بجائے مشکِ صبا میری جان زار کی دھول
حذر کرو کہ مرا دل لہو کا پیاسا ہے
مارچ 1971ء
٭٭٭
Sharing ka shkariya![]()
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks