Wah Bohat Umda
غزل
یہ موسِمِ گرچہ طرب خیز بہت ہے
احوالِ گُل و لالہ غم انگیز بہت ہے
خوش دعوتِ یاراں بھی ہے یلغارِ عدو بھی
کیا کیجیے دل کا جو کم آمیز بہت ہے
یوں پیرِ مغاں شیخِ حرم سے ہوئے یک جاں
میخانے میں کم ظرفیِ پرہیز بہت ہے
اک گردنِ مخلوق جو ہر حال میں خم ہے
اک بازوئے قاتل ہے کہ خوں ریز بہت ہے
کیوں مشعلِ دل فیض چھپاؤ تہِ داماں!
بُجھ جائے گی یُوں بھی کہ ہوا تیز بہت ہے
1975ء
Sharing ka shukariya![]()
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks