اب کیا کہیں کہ تم سے محبّت ہی اور ہے
لیکن درونِ دل تو روایت ہی اور ہے
جو شکل آئینے نے دکھائی، کچھ اور تھی
جو یاد ہے مجھے، وہ شباہت ہی اور ہے
سر پر غُبارِ کوئے ملامت سہی مگر
اہلِ سفر کو اب کے بشارت ہی اور ہے
وہ چشم مہرباں تو بہت ہے، پر ان دنوں
ہم کشتگانِ عشق کو وحشت ہی اور ہے
ہم اک طلسمِ خواب سے جاگے تو یہ کھُلا
اس سر زمین پر تو حکومت ہی اور ہے
تم نے تو کتیوں کو جلایا ہے اور بس
لیکن جو ہم نے کی ہے، وہ ہجرت ہی اور ہے
ممکن ہے تیرے حق میں نہ ہو فیصلہ کوئی
یہ دل ہے اور دل کی عدالت ہی اور ہے
راتوں کے جاگنے پہ نہیں منحصر سلیمؔ
شہرِ ہنر میں کارِ مشقّت ہی اور ہے
٭٭٭
Similar Threads:



Attention Guest, if you are not a member of Urdu Tehzeb, you have 1 new private message waiting, to view it you must fill out
Reply With Quote



Bookmarks