حج کے لغوی معنی ہیں: کسی عظیم الشان جگہ کا ارادہ کرنا۔ شرعی اصطلاح میں حج اُن خاص افعال کا نام ہے جو مقرر ہ دنوں اور مقررہ اوقات میں حج کی نیت سے احرام باندھنے کے بعد ادا کیے جاتے ہیں۔قرآن مجید کی مختلف آیات اور رسول اللہﷺ کے ارشادات کی روشنی میں یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ حج کا فریضہ ایسا نہیں ہے کہ اگر چاہیں تو ادا کر لیں اور اگر چاہیں تو چھوڑ دیں۔ یاد رکھنا چاہیے کہ ہر عاقل بالغ آزاد مسلمان جو حج کے دنوں میں قدرت زادِ راہ اور سواری رکھتا ہو اس پر زندگی میں ایک مرتبہ حج کرنا فرض ہے۔
حج کے فضائل اور اس کی اہمیت کے حوالے سے رسول اللہﷺ کے چند اقوال ملاحظہ ہوں:
(1) حضرت ابوہریرہؓسے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ سے سوال کیا گیا کہ کون سا عمل افضل ہے؟آپؐ نے فرمایا:اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانا۔ کہا گیا :پھر کون سا؟ فرمایا: اللہ کی راہ میں جہاد ۔ کہا گیا :پھر کون سا؟ فرمایا: مقبول حج۔ (متفق علیہ)
(2) حضرت ابوہریرہؓہی سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:جو شخص اللہ کے لیے حج کرے اور اس میں بے حیائی کی بات نہ بولے اور گناہ کاکام نہ کرے تو وہ لوٹ کر آتا ہے (اور گناہوں سے اس طرح پاک ہوتا ہے )گویا اس کی ماں نے اس کو آج جنا ہے۔ (متفق علیہ)
(3) حضرت ابوہریرہؓ ہی سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:ایک عمرہ دوسرے عمرے تک درمیانی گناہوں کا کفارہ ہے اور حج مبرور کا بدلہ تو بس جنت ہی ہے ۔ (متفق علیہ)
(4) حضرت عبداللہ بن مسعودؓسے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:پے در پے حج اور عمرے کیا کرواس لیے کہ یہ دونوں فقر اور گناہوں کو اس طرح دور کر دیتے ہیں جس طرح بھٹی لوہے سونے اور چاندی کی میل دورکر دیتی ہے۔ اور حج مقبول کا ثواب جنت کے سوا کچھ نہیں ۔ (سنن ترمذی)
(5) حضرت ابوہریرہؓے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:حج اور عمرہ کرنے والے اللہ کے مہمان ہیں اگر وہ ا س سے دعا کریں تو ان کی دعا قبول کرتا ہے اور اگر اس سے بخشش طلب کریں تواُن کو بخش دیتا ہے۔(سنن ابن ماجہ)
(6) حضرت ابوہریرہؓسے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہﷺ کو یہ فرماتے سنا:اللہ کے مہمان تین ہیں: جہاد کرنے والا حج کرنے والا اور عمرہ کرنے والا۔ (سنن نسائی)
(7) حضرت ابن عمرؓسے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:جس وقت تو کسی حاجی سے ملے تو اس کو سلام کہہ اور اس سے مصافحہ کر اور اس سے درخواست کر کہ وہ تیرے لیے بخشش کی دعا کرے اپنے گھر میں داخل ہونے سے پہلے پہلے اس لیے کہ اس کو بخش دیا گیا ہے۔(مسند احمد)
(8) حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:جو شخص حج کرنے یا عمرہ کرنے یا جہاد کرنے کے لیے نکلا پھر وہ راستے میں فوت ہو گیا تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے حج کرنے والے عمرہ کرنے والے اور جہاد کرنے والے کا ثواب لکھ دیتے ہیں۔(مشکاۃ المصابیح)
رسول اللہﷺ کے مندرجہ بالا ارشادات سے حج کی اہمیت اور فضیلت روزِ روشن کی طرح عیاں ہےمگر بہت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں یہ کوتاہی بہت عام ہوتی جارہی ہے کہ ایک شخص میں حج کے فرض ہونے اور حج کی ادائیگی کی تمام شرائط پائی جاتیں ہیں لیکن وہ بلاوجہ حج کرنے میں تاخیر کرکے گناہ گار ہوتا رہتا ہے ۔
دوسری کوتاہی یہ ہے کہ ہمارے معاشرے کی اکثریت حج کے لیے بڑھاپے کا انتظار کرتی ہے اور اس وقت حج پر جاتی ہے جب ان میں کمزوری اس قدر ہوجاتی ہے کہ حج کے مناسک ادا کرنے میں ان کو بہت تکلیف اور مشقت برداشت کرنی پڑتی ہے۔اس حوالے سے ہمیں چاہیے کہ قدرت اور استطاعت ہوتے ہی حج کے لیے چلے جائیں ا وراس معاملے میں صحت اور جوانی کو بیماری اور بڑھاپے پر ترجیح دیں۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنے اور اپنے محبوبﷺ کے گھر کی زیارت باربار نصیب فرمائے۔آمین
بشکریہ۔ حافظ محمد زاہد!
Similar Threads:
jazak ALLAH
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks