فسطائیت کے علم بردار ایڈولف ہٹلر کا عروج
ایڈولف ہٹلر آسٹریا کے شہر برائونا میں1889ء میں پیدا ہوا۔ نوجوانی میں اس نے عملی زندگی کا آغاز ایک ناکام مصور کی حیثیت سے کیا۔ بعدازاں وہ ایک پرجوش جرمن قوم پرست بن گیا۔ جنگ عظیم اول میں وہ جرمن فوج میں بھرتی ہوا، زخمی ہوا اور اسے شجاعت کے مظاہرے پر میڈل ملے۔ جرمنی کی شکست نے اسے صدمہ پہنچایا اوربرہم کیا۔ 1919ء میں جب وہ تیس برس کاتھا، میونخ میں ایکچھوٹی سی دائیں بازو کی جماعت میں شامل ہوا، جس نے جلد ہی اپنا نام بدل کر نیشنل سوشلسٹ جرمن ورکرز پارٹی (مختصراً ’’نازی‘‘ جماعت) رکھ لیا۔ اگلے دو برسوں میں وہ اس کا غیر متنازعہ قائد بن گیا۔ ہٹلر کی زیر قیادت نازی جماعت جلدہی طاقت ورہوگئی۔ نومبر1923ء میںاس نے ایک انقلابی حملہ کیا، جسے ’’میونخ بیئرہالپُش‘‘ کا نام دیا۔ اس کی ناکامی کے بعد ہٹلر کو گرفتار کر لیا گیا۔ اس پر غداری کامقدمہ چلاا ور اسے سزا ہوئی۔ تاہم ایک سال سے بھی کم عرصہ جیل کاٹنے کے بعد اسے رہا کردیا گیا۔ 1928ء میں بھی نازی جماعت کاحجم مختصر ہی تھا۔ تاہم عظیم کساد بازاری کے دور میں جرمن سیاسی جماعتوں کے خلاف عوام میں بے زاری کااحساس پیدا ہوا۔ اس صورت حال میں نازی جماعت نے اپنی بنیادیں مضبوط بنائیں۔ جنوری1933ء میں چوالیس برس کی عمر میں ہٹلر جرمنی کاچانسلر بن گیا۔ چانسلر بننے پر اس نے تمام مخالف جماعتوں کو حکومتی ڈھانچہ کے حق میں استعمال کر کے زائل کردیا، اورآمر بن بیٹھا۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ یہ سب کچھ عوامی آزادی اور دیوانی قوانین کی بتدریج شکست و ریخت کے بعد ہوا۔ بس سب کچھ شتابی کے ساتھ کیا گیا۔ نازیوں نے مقدمات کا تکلف بھی ضروری نہیں سمجھتا۔ بیشتر سیاسی حریفوں کوزدو کوب کیا گیا، بعض کو مار دیا گیا۔ تاہم جنگ سے پہلے چند سالوں میں اس کے باوجود ہٹلر کو جرمنوں کی بڑی اکثریت کی حمایت حاصل رہی، کیونکہ اس نے بے روزگاری کا خاتمہ اور معاشی خوشحالی کو استوار کیا۔ پھر وہ فتوحات کی دوڑ میں شامل ہوگیا، جنگ عظیم دوم کاسبب بنیں۔ ابتدائی فتوحات اسے جنگ وغیرہ کے چکر میں پڑے بغیر حاصل ہوئیں۔ انگلستان اورفرانس اپنی معاشی بدحالی کے باعث غیرمعمولی حد تک امن کے خواہاں تھے، کہ انہوں نے ہٹلر کے کسی کام میں مداخلت نہیں کی۔ ہٹلر نے ورسیلز کا معاہدہ منسوخ کیا اورجرمن فوج کو ازسرنو منظم کیا۔اس کے دستوں نے مارچ 1936ء میں رہائن لینڈ پر قبضہ کیا، مارچ1938ء میں آسٹریا کو جبری طورپر خود سے ملحق کر لیا۔ اس نے سوڈیٹن لینڈ کوبھی ستمبر1938ء میں اس سے الحاق پر رضا مند کر لیا۔ یہ چیکو سلواکیہ کاایک علاقہ تھا جہاں جرمن آباد تھے۔ ایک بین الاقوامی معاہدے ’’میونخ پیکٹ‘‘ سے برطانیہ اورفرانس کو امیدتھی کہ وہ دنیا میں امن قائم کرے گا، لیکن ایسا نہ ہوا۔ ہٹلر نے اگلے چند ماہ میں چیکوسلواکیہ کاباقی ماندہ حصہ بھی غصب کرلیا۔ ہرمرحلے پر ہٹلر نے مکاری سے اپنے اقدامات کے جواز گھڑ لیے اور دھمکی بھی دی۔ کہا اگر کسی نے مزاحم ہونے کی کوشش کی، تو وہ جنگ کریگا۔ ہر مرحلے پر مغربی جمہوریتوں نے پسپائی اختیار کی۔ انگلستان اورفرانس نے البتہ پولینڈ کے دفاع کا قصد کیا، جوہٹلر کا اگلا نشانہ تھا۔ ہٹلر نے اپنے دفاع کے لیے اگست1939ء میںسٹالن کے ساتھ ’’عدم جارحیت‘‘ کے معاہدے پر دستخط کیے۔ دراصل یہ ایک جارحانہ اتحاد تھا۔جس میں دو آمراس امر پر متفق ہوئے تھے، کہ وہ پولینڈ کو کس شرح سے آپس میں تقسیم کریں گے۔ نودن بعد جرمنی نے پولینڈ پر حملہ کیا۔ اس کے سولہ روز بعدروس بھی حملے میں شامل ہوگیا، اگرچہ انگلستان اور فرانس بھی اس جنگ میں کود پڑے، لیکن پولینڈ کوشکست فاش ہوئی۔ 1940ء ہٹلر کے لیے بہت اہم برس تھا۔ اپریل میں اس کی فوجوں نے ڈنمارک اورناروے کو روند ڈالا۔ مئی میں انہوں نے ہالینڈ، بلجیم اورلکسمبرگ کو تاخت و تاراج کیا۔ جون میں فرانس نے شکست کھائی لیکن اسی برس برطانیہ نے جرمن ہوائی حملوں کا دلیری سے مقابلہ کیا۔ ہٹلر کبھی انگلستان پر قابض ہونے میں کامیاب نہ ہوسکا۔ اپریل1941ء میں ہٹلر کی فوجوں نے یونان اور یوگوسلاویہ پر قبضہ کیا۔ جون1941ء میں ہٹلر نے عدم جارجیت کے معاہدے کوتارتار کیا اورروس پرحملہ آورہوا۔ اس کی فوجوں نے بڑے روسی علاقے پر فتح حاصل کی۔ لیکن وہ موسم سرما سے پہلے روسی فوجوں کو نیست ونابود کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے۔ اگرچہ وہ روس اورانگلستان سے برسرپیکار تھا، لیکن ہٹلر نے دسمبر1941ء میں امریکہ پر بھی حملہ کردیا۔ جبکہ تب کچھ عرصہ پہلے جاپان پرل باربر میںامریکی بحری چھائونی پر حملہ کرچکاتھا۔ 1942ء کے وسط تک جرمنی یورپ کے ایک بڑے حصے پر قابض ہوچکا تھا۔ مزید برآں اس نے شمالی افریقہ کے بیشتر حصہ کوبھی فتح کیا۔1942ء کے دوسرے نصف میں جنگ کا رخ بدل گیا۔ جب جرمنی کو مصر میں ایل العلمین اورروس میںسٹالن گراڈ کی جنگوں میں شکست کی ہزیمت اٹھانی پڑی۔ ان نقصانات کے بعد جرمن کی عسکری برتری کا زوال شروع ہوا۔ جرمنی کی حتمی شکست گو اب ناگزیر معلوم ہورہی تھی، لیکن ہٹلر نے دست بردار ہونے سے انکار کردیا، ہولناک نقصانات کے باوجود سٹالن گراڈ کی شکست کے بعد قریب دو برس یہ جنگ جاری رہی۔ 1945ء کے موسم بہار میں تلخ انجام وقوع پذیر ہوا۔30اپریل کو برلن میں ہٹلر نے خودکشی کرلی۔ سات روزبعد جرمنی نے ہتھیار پھینک دیئے۔
ولیم ہارٹ ایڈولف ہٹلر آسٹریا کے شہر برائونا میں1889ء میں پیدا ہوا۔ نوجوانی میں اس نے عملی زندگی کا آغاز ایک ناکام مصور کی حیثیت سے کیا۔ بعدازاں وہ ایک پرجوش جرمن قوم پرست بن گیا۔ جنگ عظیم اول میں وہ جرمن فوج میں بھرتی ہوا، زخمی ہوا اور اسے شجاعت کے مظاہرے پر میڈل ملے۔ جرمنی کی شکست نے اسے صدمہ پہنچایا اوربرہم کیا۔ 1919ء میں جب وہ تیس برس کاتھا، میونخ میں ایکچھوٹی سی دائیں بازو کی جماعت میں شامل ہوا، جس نے جلد ہی اپنا نام بدل کر نیشنل سوشلسٹ جرمن ورکرز پارٹی (مختصراً ’’نازی‘‘ جماعت) رکھ لیا۔ اگلے دو برسوں میں وہ اس کا غیر متنازعہ قائد بن گیا۔ ہٹلر کی زیر قیادت نازی جماعت جلدہی طاقت ورہوگئی۔ نومبر1923ء میںاس نے ایک انقلابی حملہ کیا، جسے ’’میونخ بیئرہالپُش‘‘ کا نام دیا۔ اس کی ناکامی کے بعد ہٹلر کو گرفتار کر لیا گیا۔ اس پر غداری کامقدمہ چلاا ور اسے سزا ہوئی۔ تاہم ایک سال سے بھی کم عرصہ جیل کاٹنے کے بعد اسے رہا کردیا گیا۔ 1928ء میں بھی نازی جماعت کاحجم مختصر ہی تھا۔ تاہم عظیم کساد بازاری کے دور میں جرمن سیاسی جماعتوں کے خلاف عوام میں بے زاری کااحساس پیدا ہوا۔ اس صورت حال میں نازی جماعت نے اپنی بنیادیں مضبوط بنائیں۔ جنوری1933ء میں چوالیس برس کی عمر میں ہٹلر جرمنی کاچانسلر بن گیا۔ چانسلر بننے پر اس نے تمام مخالف جماعتوں کو حکومتی ڈھانچہ کے حق میں استعمال کر کے زائل کردیا، اورآمر بن بیٹھا۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ یہ سب کچھ عوامی آزادی اور دیوانی قوانین کی بتدریج شکست و ریخت کے بعد ہوا۔ بس سب کچھ شتابی کے ساتھ کیا گیا۔ نازیوں نے مقدمات کا تکلف بھی ضروری نہیں سمجھتا۔ بیشتر سیاسی حریفوں کوزدو کوب کیا گیا، بعض کو مار دیا گیا۔ تاہم جنگ سے پہلے چند سالوں میں اس کے باوجود ہٹلر کو جرمنوں کی بڑی اکثریت کی حمایت حاصل رہی، کیونکہ اس نے بے روزگاری کا خاتمہ اور معاشی خوشحالی کو استوار کیا۔ پھر وہ فتوحات کی دوڑ میں شامل ہوگیا، جنگ عظیم دوم کاسبب بنیں۔ ابتدائی فتوحات اسے جنگ وغیرہ کے چکر میں پڑے بغیر حاصل ہوئیں۔ انگلستان اورفرانس اپنی معاشی بدحالی کے باعث غیرمعمولی حد تک امن کے خواہاں تھے، کہ انہوں نے ہٹلر کے کسی کام میں مداخلت نہیں کی۔ ہٹلر نے ورسیلز کا معاہدہ منسوخ کیا اورجرمن فوج کو ازسرنو منظم کیا۔اس کے دستوں نے مارچ 1936ء میں رہائن لینڈ پر قبضہ کیا، مارچ1938ء میں آسٹریا کو جبری طورپر خود سے ملحق کر لیا۔ اس نے سوڈیٹن لینڈ کوبھی ستمبر1938ء میں اس سے الحاق پر رضا مند کر لیا۔ یہ چیکو سلواکیہ کاایک علاقہ تھا جہاں جرمن آباد تھے۔ ایک بین الاقوامی معاہدے ’’میونخ پیکٹ‘‘ سے برطانیہ اورفرانس کو امیدتھی کہ وہ دنیا میں امن قائم کرے گا، لیکن ایسا نہ ہوا۔ ہٹلر نے اگلے چند ماہ میں چیکوسلواکیہ کاباقی ماندہ حصہ بھی غصب کرلیا۔ ہرمرحلے پر ہٹلر نے مکاری سے اپنے اقدامات کے جواز گھڑ لیے اور دھمکی بھی دی۔ کہا اگر کسی نے مزاحم ہونے کی کوشش کی، تو وہ جنگ کریگا۔ ہر مرحلے پر مغربی جمہوریتوں نے پسپائی اختیار کی۔ انگلستان اورفرانس نے البتہ پولینڈ کے دفاع کا قصد کیا، جوہٹلر کا اگلا نشانہ تھا۔ ہٹلر نے اپنے دفاع کے لیے اگست1939ء میںسٹالن کے ساتھ ’’عدم جارحیت‘‘ کے معاہدے پر دستخط کیے۔ دراصل یہ ایک جارحانہ اتحاد تھا۔جس میں دو آمراس امر پر متفق ہوئے تھے، کہ وہ پولینڈ کو کس شرح سے آپس میں تقسیم کریں گے۔ نودن بعد جرمنی نے پولینڈ پر حملہ کیا۔ اس کے سولہ روز بعدروس بھی حملے میں شامل ہوگیا، اگرچہ انگلستان اور فرانس بھی اس جنگ میں کود پڑے، لیکن پولینڈ کوشکست فاش ہوئی۔ 1940ء ہٹلر کے لیے بہت اہم برس تھا۔ اپریل میں اس کی فوجوں نے ڈنمارک اورناروے کو روند ڈالا۔ مئی میں انہوں نے ہالینڈ، بلجیم اورلکسمبرگ کو تاخت و تاراج کیا۔ جون میں فرانس نے شکست کھائی لیکن اسی برس برطانیہ نے جرمن ہوائی حملوں کا دلیری سے مقابلہ کیا۔ ہٹلر کبھی انگلستان پر قابض ہونے میں کامیاب نہ ہوسکا۔ اپریل1941ء میں ہٹلر کی فوجوں نے یونان اور یوگوسلاویہ پر قبضہ کیا۔ جون1941ء میں ہٹلر نے عدم جارجیت کے معاہدے کوتارتار کیا اورروس پرحملہ آورہوا۔ اس کی فوجوں نے بڑے روسی علاقے پر فتح حاصل کی۔ لیکن وہ موسم سرما سے پہلے روسی فوجوں کو نیست ونابود کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے۔ اگرچہ وہ روس اورانگلستان سے برسرپیکار تھا، لیکن ہٹلر نے دسمبر1941ء میں امریکہ پر بھی حملہ کردیا۔ جبکہ تب کچھ عرصہ پہلے جاپان پرل باربر میںامریکی بحری چھائونی پر حملہ کرچکاتھا۔ 1942ء کے وسط تک جرمنی یورپ کے ایک بڑے حصے پر قابض ہوچکا تھا۔ مزید برآں اس نے شمالی افریقہ کے بیشتر حصہ کوبھی فتح کیا۔1942ء کے دوسرے نصف میں جنگ کا رخ بدل گیا۔ جب جرمنی کو مصر میں ایل العلمین اورروس میںسٹالن گراڈ کی جنگوں میں شکست کی ہزیمت اٹھانی پڑی۔ ان نقصانات کے بعد جرمن کی عسکری برتری کا زوال شروع ہوا۔ جرمنی کی حتمی شکست گو اب ناگزیر معلوم ہورہی تھی، لیکن ہٹلر نے دست بردار ہونے سے انکار کردیا، ہولناک نقصانات کے باوجود سٹالن گراڈ کی شکست کے بعد قریب دو برس یہ جنگ جاری رہی۔ 1945ء کے موسم بہار میں تلخ انجام وقوع پذیر ہوا۔30اپریل کو برلن میں ہٹلر نے خودکشی کرلی۔ سات روزبعد جرمنی نے ہتھیار پھینک دیئے۔
Re: فسطائیت کے علم بردار ایڈولف ہٹلر کا عروج
Re: فسطائیت کے علم بردار ایڈولف ہٹلر کا عروج