ویہلا ٹائم ڈے
اویس احمد
ہم پیدائشی عاشق ہیں اور ہمارا نام بھی عاشق ہے۔ اماں حضور فرماتی ہیں کہ ہم نے پیدا ہوتے ہی ایک خوبصورت نرس کو آنکھ ماری تھی۔ ممکن ہے یہ بیان مبالغہ آرائی پر مبنی ہو۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ لاعلمی کی بنیاد پر اماں حضور نے یہ تہمت ہم پر دھری ہو کیوں کہ اکثر وبیشتر بچے پیدا ہوتے ہیں تو چندھی چندھی آنکھوں سے گرد وپیش کا جائزہ لیتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ اس موقع پر خاکسار کی ایک آنکھ چندھیا جانے کے بجائے موندی گئی ہواور نرس نے ازراہ حسرت یہ سمجھا ہو کہ نومولود نے اسے چھیڑ دیا ہے۔ بہرحال وجہ تسمیہ جو بھی رہی ہو اماں حضور کے ہاتھ تو ابا کے خصائل پر انگلی اٹھانے کا موقع آ گیا تھا چناچہ یہ کہہ کر وہ ایک قہقہہ لگاتی اور کہتی تھیں کہ کمبخت بالکل اپنے باپ پر گیا ہے۔ باپ بے چارے کو اپنے زمانے میں کھیل کھیلنے کا موقع نہیں مل پایا تھا اور اکیسواں برس لگتے ہی کان سے پکڑ کر مولوی صاحب کے سامنے بٹھا دیئے گئے تھے۔ چاروناچار منمناتی آواز میں اماں حضور کو قبول فرما کر ہی جاں خلاصی ہو سکی تھی۔ اماں حضور اس وقت جاگتی آنکھوں سے ٹین ایج کے خواب بننے میں مصروف تھیں مگر ان کی آنکھوں سے بنے ہوئے خواب چھین کر جہیز میں انہیں اون سلائی تھما دی گئی تھی تاکہ وہ حقیقت میں بُنائی کر سکیں۔ چناچہ انہوں نے بُننا شروع کر دیا اور پھر ساری عمر بُنتی ہی چلی گئیں۔ابا کے جوہر شادی کے بعد کھلے۔ آس پڑوس، دور دراز اور ادھر ادھر کون سی عفیفہ تھی جو ابا کی “نظریاتی شدت پسندی” سے محفوظ رہ پائی ہو۔ نظریاتی کو آپ نظریہ کے بجائے نظر سمجھیں۔ عقد مسنونہ کے بعد گویا ابا کے ہاتھ “لائسنس ٹو چِل” آ گیا تھا اور انہوں نے بھی کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ کیا اور جیسے جیمز بانڈ اپنا لائسنس ٹو کِل استعمال کرتا ہے بعینہِ ویسے ابا نے لائسنس ٹو چِل کا بلا جھجک استعمال کیا۔ ہم اپنے والد کا لائسنس ٹو چِل اور والدہ کے تانے بانے بُننے کی صلاحیت لے کر پیدا ہوئے۔
ہم اپنے والدین کی اکلوتی اولاد ہیں چناچہ تمام تر شفقت اور ناتمام حسرت ہمارے ہی حصے میں آئی۔ والدہ نے ہمیں اپنی شفقت کے سائے میں رکھ کر تانے بانے بننے کی بھرپور ٹریننگ دی اور ہم “امور خاندانی مسائل” میں طاق ہو گئے۔ دادی سے لے کر پھوپھی، تائی، چچی اور ممانی کے افکار و کردار سے ہمیں یوں روشناس کروایا گیا جیسے پاکستانی فوجیوں کو ہندوستان کے بارے میں بریفنگ دی جاتی ہے۔ جب کہ خالہ کے بارے میں ہمیں بتایا گیا کہ ان سے زیادہ نیک سیرت خاتون روئے زمین پر دوسری کوئی نہیں پائی جاتی۔ یہ اور بات کہ ہماری خالہ حضور پورے خاندان میں عذاب النسا کے لقب سے پکاری جاتی تھیں۔ والد صاحب نے بچپن سے ہی ہمیں خواتین پر اعتماد نہ کرنے کا گر سکھایا۔ ان کے مطابق خواتین قابل بھروسہ نہیں ہوتیں۔ دلیل کے طور پر وہ ہماری پڑوسن خالہ خیرن کی مثال دیا کرتے جنہوں نے خالو مجید کی غیر موجودگی میں ابا کو عین آدھی رات کو غسل خانے کا نلکہ ٹھیک کرنے کے لیے بلایا تھا۔ ہمسائیگی کے جذبات سے معمور ابا عقبی دیوار پھلانگ کر ان کے مکان میں جا اترے ۔ قریباً پینتیس منٹ کے بعد طبل جنگ دروازے پر دھڑدھڑاہٹ کی صورت بجا۔ گو ابا نے کبھی اعتراف نہیں کیا مگر اماں حضور چسکے لے لے کر بتاتی ہیں کہ اس رات انہوں نے ابا کو دیوار پر امریکہ کے مجسمہ آزادی کی طرح ایستادہ دیکھا تھا۔ ان کے افقی ہاتھ میں جوتے اور دوسرے ہاتھ میں مبینہ طور پر دھوتی پائی گئی تھی۔ ابا اس داستان کے اس حصے سے اختلاف کرتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ ان کے دونوں ہاتھ سکندر کی طرح خالی تھے۔
جب ہم نے ابا کے نقش قدم پر چلنا شروع کیا تو ہماری “نیک اور صالح” حرکتوں کی تشہیر کے باعث الحمد للہ ہمیں خاندان اور گلی محلے میں تمام دوشیزاؤں نے منہ لگانا چھوڑ دیا۔ وجہ صاف ظاہر ہے۔ ہم ابا حضور کی خالہ خیرن والی ہزیمت اور ابا کی نصیحت کبھی نہ بھول پائے اور اسی لیے صنف مخالف پر کبھی اعتبار نہ کیا۔ بد عہدی اور بے اعتباری کی بعض کہانیاں ہماری انتہائی کوشش کے باوجود عوام و خواص تک پہنچ ہی گئیں چناچہ قرب و جوار کی تمام وجود زن نے ہمارا سماجی مقاطعہ کر دیا اور ہماری شادی خانہ آبادی کے منصوبے پاکستان کے تمام پانچ سالہ منصوبوں کی طرح تاخیر کا شکار ہوگئے۔زمانے کی ترقی کے ساتھ ہمارے گاؤں میں بھی جدت آ گئی اور ہماری رسائی موبائل فون اورانٹر نیٹ تک ہو گئی۔گرد و نواح سے مایوس ہو کر ہم نے سوشل میڈیا میں مواصلاتی رابطے بڑھا دیئے۔ صالح نوجوان ہم سے اور ہم ان سے کافی خوش ہیں۔ ہم مگر اس بات سے لاعلم تھے کہ ہمارے ابا اب ہمارے نقش قدم پر چل پڑے ہیں۔ ایک عدد سمارٹ فون ابا حضور کے پاس بھی ہے اور ان کو بھی سوشل میڈیا کا چسکہ پڑ چکا ہے۔
کل ابا نے نہایت شرماتے ہوئے ہمیں بتایا ہے کہ ان کی سوشل میڈیا دوست نے چودہ فروری کو ان سے ملنے کا وعدہ کیا ہے۔ ابا پوچھ رہے تھے کہ یہ ویہلا ٹائم ڈے کیا ہوتا ہے؟ اب ہم سر پکڑے بیٹھے ہیں کہ ابا کو کیا سمجھائیں۔