دن بھی نہ بیتا رات نہ بیتی
تیری ایک بھی بات نہ بیتی
ٹھہر گئی آ کر آنکھوں میں
تیرے بن برسات نہ بیتی
آنسو رکے نا ان نینوں سے
تاروں کی بارات نہ بیتی
جم سی گئی احساس کے اندر
جیون بیتا مات نہ بیتی
بیت گئے ان گنت زمانے
ایک تمہاری ذات نہ بیتی
***
Printable View
دن بھی نہ بیتا رات نہ بیتی
تیری ایک بھی بات نہ بیتی
ٹھہر گئی آ کر آنکھوں میں
تیرے بن برسات نہ بیتی
آنسو رکے نا ان نینوں سے
تاروں کی بارات نہ بیتی
جم سی گئی احساس کے اندر
جیون بیتا مات نہ بیتی
بیت گئے ان گنت زمانے
ایک تمہاری ذات نہ بیتی
***
پھر تیرا ذکر دل سنبھال گیا
ایک ہی پل میں سب ملال گیا
ہو لیے ہم بھی اس طرف جاناں
جس طرف بھی تیرا خیال گیا
آج پھر تیری یاد مانگی تھی
آج پھر وقت ہم کو ٹال گیا
تو دسمبر کی بات کرتا ہے
اور ہمارا تو سارا سال گیا
تیرا ہوتا تو پھٹ گیا ہوتا
میرا دل تھا جو غم کو پال گیا
کون تھا وہ کہاں سے آیا تھا
ہم کو کن چکروں میں ڈال گیا
***
بچھڑنے کے زمانے آ گئے ہیں
اسے کتنے بہانے آ گئے ہیں
اداسی میں گھرے رہتے تھے جب ہم
وہ سارے دن پرانے آ گئے ہیں
نہیں ہیں خوش گرا کر عرش سے بھی
زمیں سے بھی اٹھانے آ گئے ہیں
وہ ہم پر مسکرانے آ گئے ہیں
نیا اک غم لگانے آ گئے ہیں
کسی کی موت کے آثار دل میں
صف ماتم بچھانے آ گئے ہیں
بتا دو موسم گریہ کو فرحت
کہ ہم رونے رلانے آ گئے ہیں
***
کہاں دل قید سے چھوٹا ہوا ہے
ابھی تک شہر سے روٹھا ہوا ہے
ہمیں کیسے کہیں اس دل کو سچا
ہمارے سامنے جھوٹا ہوا ہے
کسی کا کچھ نہیں اپنا یہاں پر
یہ سب سامان ہی لوٹا ہوا ہے
تمہارے دل میں میری چاہتوں کا
کوئی تو بیج سا پھوٹا ہوا ہے
کسی کے نام لگ جائے بلا سے
یہ دل پہلے سے ہی ٹوٹا ہوا ہے
ِ***
ہم تجھے شہر میں یوں ڈھونڈتے ہیں
جس طرح لوگ سکوں ڈھونڈتے ہیں
ہم گو منصور نہیں ہیں لیکن
اس کا انداز جنوں ڈھونڈتے ہیں
جس سے ٹکراتی رہے پیشانی
تیرے دکھ میں وہ ستوں ڈھونڈتے ہیں
وہ تو کھویا ہے کہیں باطن میں
ہم جسے اپنے بروں ڈھونڈتے ہیں
ہم کہ ترسی ہوئی شریانیں ہیں
اور اک قطرہ خوں ڈھونڈتے ہیں
***
اسی سے ہوتا ہے ظاہر جو حال درد کا ہے
سبھی کو کوئی نہ کوئی وبال درد کا ہے
سحر سِسکتے ہوئے آسمان سے اُتری
تو دل نے جان لیا یہ بھی سال درد کا ہے
اب اس کے بعد کوئی رابطہ نہیں رکھنا
یہ بات طے ہوئی لیکن سوال درد کا ہے
یہ دل، یہ اُجڑی ہوئی چشمِ نم، یہ تنہائی
ہمارے پاس تو جو بھی ہے مال درد کا ہے
یہ جھانک لیتی ہے دل سے جو دوسرے دل میں
میری نگاہ میں سارا کمال درد کا ہے
اسیر ہے میری شاخ نصیب پت جھڑ میں
میرے پرندۂ دل پر بھی جال درد کا ہے
بدل گئے میرے حالات دل تو کیا ہو گا
یہ ایسی بات ہے جس میں زوال درد کا ہے
دلوں پہ زندہ تھا دل ہی نہیں رہے ہیں یہاں
اب ایسے شہر میں جینا محال درد کا ہے
جمود توڑتی آنکھیں، سکوت توڑتے لب
یہ ناک نقشہ یہ سب خدّ و خال درد کا ہے
سُنا ہے تیرے نگر جا بسا ہے بیچارا
سُناؤ کیسا وہاں حال چال درد کا ہے
وگرنہ خار و خزاں کے سوا نہیں کچھ بھی
بس ایک پھول میری ڈال ڈال درد کا ہے
اُکھڑتی جاتی ہے دیوانہ وار ایڑیوں سے
زمینِ جاں پہ ہماری دھمال درد کا ہے
فقیر بیٹھے ہوئے ہیں بہت سکون سے ہم
تیری جدائی کی کُٹیا ہے پیال درد کا ہے
کہ ہم نے کس کے لیے جاں عذاب میں ڈالی
ہمیں تو آج بھی خود سے ملال درد کا ہے
ہمارے سینے میں دل کی جگہ پہ پتھر ہے
اِسی لیے تو یہاں ایسا کال درد کا ہے
تہاری چاہ نے ڈھونڈی تھی میری آبادی
یہ گھاؤ سینے کی بستی میں کھال درد کا ہے
یہ عشق ہے اِسے تیمار داریاں کیسی
اسے نہ پوچھ یہ بوڑھا نڈھال درد کا ہے
ہم اس کو دیکھتے جاتے ہیں، روتے جاتے ہیں
یہ صحنِ شب میں پڑا ہے جو تھال درد کا ہے
نہ تم میں سکھ کی کوئی بات ہے نہ مجھے میں ہے
تمہارا اور میرا ملنا وصال درد کا ہے
ابھی کہیں سے کڑی کوئی بھی نہیں ٹوٹی
ابھی تو سلسلہ سارا بحال درد کا ہے
میری طرف سے گزر کا خیال رہنے دو
یہ راستہ بھی بہت پائمال درد کا ہے
دل و نظر تو رہیں گے سکون میں لیکن
شب فراق مجھے احتمال درد کا ہے
کسی کا درد ہو اپنا سمجھنے لگتے ہیں
ہمارے پاس یہی کچھ مال درد کا ہے
یہیں کہیں میرے اندر کوئی تڑپتا ہے
یہیں کہیں پہ کوئی یرغمال درد کا ہے
اسی لیے تو ہمیں عجز کا قرینہ ہے
ہمارے ذات میں جاہ و جلال درد کا ہے
ہے مار رکھنے کے در پئے تیری مسیحائی
جو دوڑا ہے مَن میں غزال درد کا ہے
وہیں کہیں کسی گھاٹی میں تیرا ہجر بھی ہے
میرے لہُو سے جہاں اِتصال درد کا ہے
نفس نفس پہ پڑے آبلوں سے لگتا ہے
نہ جانے روح میں کب سے اُبال درد کا ہے
یہی تو فرق ہے ان میں اور آپ میں فرحت
کسی کو اپنا کسی کو خیال درد کا ہے
کسی نے پوچھا کہ فرحت بہت حسین ہو تم
تو مُسکرا کے کہا سب جمال درد کا ہے
***
حسن و جمال کے بھی زمانے نہیں رہے
آنکھوں میں اس کی خواب سہانے نہیں رہے
ملنے کو آ ہی جاتا ہے ہر چند روز بعد
لگتا ہے اس کے پاس بہانے نہیں رہے
لرزش ہے ہاتھ میں تو نظر بھی ہے دُھندلی
پہلے سے اب وہ دل کے نشانے نہیں رہے
اُٹھتی نہیں ہیں شوق و تجسّس کے باوجود
آنکھوں کے کتنے کام پرانے نہیں رہے
کمرے سب بھر گئے ہیں مسائل کی گرد سے
دل میں تیرے خیال کے خانے نہیں رہے
***
ِ جسم تپتے پتھروں پر روح صحراؤں میں تھی
پھر بھی تیری یاد ایسی تھی کہ جو چھاؤں میں تھی
ایک پر ہیبت سکوت مستقل آنکھوں میں تھا
ایک طغیانی مسلسل دل کے دریاؤں میں تھی
ہم ہی ہو گزرے ہیں خود اپنے شہر اجنبی
وہ جہاں بھی تھی وہاں اپنے شناساؤں میں تھی
اک صدا سی برف بن کر گر رہی تھی جسم پر
ایک زنجیر ہوا تھی جو میرے پاؤں میں تھی
***
دن مصیبت کے ٹل گئے ہوتے
اپنا رستہ بدل گئے ہوتے
دل کی وحشت نے بڑھ کے گھیر لیا
ورنہ آگے نکل گئے ہوتے
تیرے غم نے قدم اکھیڑ دیے
ورنہ کب کے سنبھل گئے ہوتے
تم نے لوگوں کو کیوں توجہ دی
اپنے ہی آپ جل گئے ہوتے
شکر ہے ہم نہیں ہیں دن ورنہ
شام کے وقت ڈھل گئے ہوتے
***
درد کی سلطنت کا راج ملا
بے قراری کا تخت و تاج ملا
وقت اک شعبدہ سا ہے اور بس
کل ملا ہے کبھی نہ آج ملا
آنکھ نا ہی کھلے تو بہتر ہے
آنکھ کھولی تو یہ رواج ملا
عشق سے بیاہ ہو گیا اور پھر
دل کی دلہن کو غم کا داج ملا
لگ کے کندھے سے روتا جاتا تھا
آج تک جو بھی ہم مزاج ملا
دن کو ہم سے ملا ہے صبر جمیل
رات کو درد کا خراج ملا
تیری یادیں ہی چھانتے ہیں ہم
دیکھو کیسا یہ کام کاج ملا
***