اٹھا کے پھول کی پتی نزاکت سے مسل ڈالی
اشارے سے کہا ہم دل کا ایسا حال کرتے ہیں
Printable View
اٹھا کے پھول کی پتی نزاکت سے مسل ڈالی
اشارے سے کہا ہم دل کا ایسا حال کرتے ہیں
یہ بھی آداب ہمارے ہیں تمہیں کیا معلوم
ہم تمہیں جیت کے ہارے ہیں تمہیں کیا معلوم
ایک تم ہو کہ سمجھتے ہی نہیں ہو ہم کو
ایک ہم ہیں کہ تمہارے ہیں تمہیں کیا معلوم
وہ دل کا حال سنتے رہے پہلے، اور پھر
ہنس کر کہا یہ گزرے زمانے کی بات ہے
بہانہ مل نہ جائے بجلیوں کو ٹوٹ پڑنے کا
کلیجہ کانپتا ہے، آشیاں کو، آشیاں کہتے
وہ ہنس دئیے تو ستارے بکھر گئے ہر سُو
وہ رو دئیے تو کوئی رات مُشکبُو نہ ہُوئی
وہ چل دئیے تو کئی داستانیں چھوڑ گئے
وہ مل گئے تو کوئی بات رُو برو نہ ہُوئی
یہی کافی ہے آپس کے بھرم نہ ٹوٹنے پائیں
کبھی بھی دوستوں کو آزما کر کچھ نہیں ملتا
ابھی سے برف الجھنے لگی ہے بالوں سے
ابھی تو قرضِ ماہ و سال بھی اُتارا نہیں
سمندروں کو بھی حیرت ہوئی کہ ڈوبتے وقت
کسی کو ہم نے مدد کے لیے پکارا نہیں
يہ مانا ميں کسی قابل نہيں ہوں ان نگاہوں ميں
برا کيا ہے اگر يہ دکھ يہ حيرانی مجھے دے دو
ہاں ٹھیک ہے میں اپنی انا کا مریض ہوں
آخر میرے مزاج میں کیوں دخل دے کوئی
سارا فساد بڑھتی ہوئی خواہشوں کا ہے
دل سے بڑا جہان میں امجد عدُو ہے کون