Re: Farhat Abbas Shah' Collection
محبت ذات ہوتی ہے
محبت ذات ہوتی ہے
محبت ذات کی تکمیل ہوتی ہے
کوئی جنگل میں جا ٹھہرے
کسی بستی میں بس جائے
محبت ساتھ ہوتی ہے
محبت خوشبوؤں کی لے
محبت موسموں کا دھن
محبت آبشاروں کے نکھرتے پانیوں کا من
محبت جنگلوں میں رقص کرتی مورنی کا تن
محبت چلچلاتے گرم صحراؤں میں ٹھنڈی چھاؤں کی مانند
محبت اجنبی دنیا میں اپنے گاؤں کی مانند
محبت دل
محبت جاں
محبت روح کا درماں محبت مورتی ہے
اور کبھی دل کے مندر میں کہیں پر ٹوٹ جائے تو
محبت کانچ کی گڑیا
فضاؤں میں کسی کے ہاتھ سے گر چھوٹ جائے تو
محبت آبلہ ہے کرب کا
اور پھوٹ جائے تو
محبت روگ ہوتی ہے
محبت سوگ ہوتی ہے
محبت شام ہوتی ہے
محبت رات ہوتی ہے
محبت جھلملاتی آنکھ میں برسات میں آنکھ ہوتی ہے
محبت نیند کی رت میں حسین خوابوں کے رستوں پر سلگتے جان کو
آتے رت جگوں کی گھات ہوتی ہے
محبت جیت ہوتی ہے
محبت مات ہوتی ہے
محبت ذات ہوتی ہے
***
Re: Farhat Abbas Shah' Collection
بین
زندگی جیسے کوئی زرد سفر موت زدہ
سنگ، حیوان، شجر، موت زدہ
مسکرائیں تو ہنسے جاتی ہے
زخم کھائی ہوئی تقدیر ڈگر موت زدہ
اور رونے کے لیے بیٹھیں تو رومالوں پر
جھرجھراتا ہوا ایمان سلگ اٹھتا ہے
جذب ہونے ہی نہیں دیتا کسی آنسو کو
بھیگ جاتی ہے جبیں صدمے کی
دن چمکتا ہے سر وہم تمنا اور پھر
دور گرتی ہوئی پیلاہٹ میں
چُرمرائی ہوئی اک شام لٹک آتی ہے
رات پڑتی ہے تو کرتے ہیں بسر موت زدہ
اس طرح جیسے صلیبوں سے بندھی بے چینی
موت سے اگلا کوئی خوف بسر کرتی ہے
کس فرشتے کا گریبان پکڑ کر پوچھیں
ہنستے بستے ہوئے بازاروں پر
کس نے ڈالی ہے نظر موت زدہ
دل لب درد
پریشان خیالات کی چوکٹپ سے لگا بیٹھا ہے
جس طرح سے کوئی پس ماندہ عزیز
دم بہ دم ڈوبتی یادوں کی صف ماتم پر
تھام کر بیٹھا ہو سر موت زدہ
زندگی
زندگی، درد کا گھر موت زدہ
کھڑکیاں سرد
دریچے خاموش
صحن ویران
شجر موت زدہ
روح سنسان
خبر موت زدہ
دل بیابان
اثر موت زدہ
بستیاں، گاؤں، محلے، چوپال
ادھ مری آس، بشر موت زدہ
***
Re: Farhat Abbas Shah' Collection
دل
دل کعبہ
دل مسجد مندر
دل دربار فقیراں
دل دنیا
دل اڑن کٹھولا
دل زندانِ اسیراں
***
Re: Farhat Abbas Shah' Collection
ایک نظم
خوبصورت پھولوں
اور رنگ برنگی تتلیوں کی قسم
تم میری روح اور میرے بدن کے درمیان
یوں ہو
جیسے زمین اور آسمان کے درمیان
ٹمٹماتے ہوئے ستارے
جیسے بے کنار اور وسیع و عریض
ریگستانوں میں
نوٹ کے لٹکی ہوئی چھتوں نے
روشن دان پرو ڈالے ہیں
انتظار نوکیلی سلاخوں کی طرح
دل میں اترتا جا رہا ہے
اور دل نا امیدی کی گہری اور تاریک کھائیوں میں
کنوئیں میں گرتے ہوئے پتھر کی طرح
سیلاب
تالے
اور پتھر
بہت زیادہ ہیں
اور ان کے مقابلے میں
میں اور تم اور وہ بھی ایک دوسرے کے بغیر
بہت کم
بہت ہی کم
***
Re: Farhat Abbas Shah' Collection
محبت کی ادھوری نظم
رات کا سمندر ہے
رات بھی محبت کی
بات کا اجالا ہے
بات بھی محبت کی
گھات کی ضرورت ہے
گھات بھی محبت کی
نرم گرم خاموشی
سہج سہج سرگوشی
چور چور دروازے
کون چھپ کے آیا ہے
آرزو نے جنگل میں
راستہ بنایا ہے
جھینپتے ہوئے آنگن
نے درخت سے مل کر
کچھ نہ کچھ چھپایا ہے
آسماں کی کھڑکی میں
سکھ بھری شرارت سے
چاند مسکرایا ہے
چاند مسکرایا ہے
چاندنی نہائی ہے
خوشبوؤں نے موسم میں
آگ سی لگائی ہے
عشق نے محبت کی
آنکھ چومنا چاہی
اور ہوا کے حلقے میں
شوخ سی نزاکت سے
شاخ کمسائی ہے
رات کا سمندر ہے
رات بھی محبت کی
بات کا اجالا ہے
رات بھی محبت کی
بات کے سویرے میں
زندگی کے گھیرے میں
روح ٹمٹمائی ہے
وصل جھلملایا ہے
دل نے بند سینے میں
حشر سا اٹھایا ہے
کون چھپ کے آیا ہے
***
Re: Farhat Abbas Shah' Collection
مجھ سے ناراض نہ ہو
مجھ سے ناراض نہ ہو
تجھ سے بے چینی کو ٹکرانے کی نیت تو نہیں
تجھ سے گھبرائے ہوئے دن کے تعارف میں میری مرضی
نہیں ہے شامل
تیری ویران خیالی میں میرا ہاتھ نہیں
میں تو کملائی ہوئی شاخ کی مانند ہوں بہت افسردہ
میں تو ذروں کی طرح چپ ہوں بہت
ایک ہی تلوے تلے
ایک ہی بار کئی مرتبہ آ جاتا ہے دل
اور میں چپ ہوں بہت
مجھ سے ناراض نہ ہو
تیری ناراضی سے ڈرتی ہے ہوا
اور مجھے غصے سے آ لگتی ہے
اور میری سانسوں کی ترتیب بدل دیتی ہے
تیری ناراضی سے ہوتا ہے سفر خوفزدہ
اور میری راہیں بدل دیتا ہے
اور میرے پاؤں جما دیتا ہے انگاروں پر
میں کئی روز سے کچھ باتوں سے جلتا ہوں بہت
ہائے جو ٹوٹ کے کرتے ہیں محبت وہ لوگ
ہائے جو دل میں بساتے نہیں نفرت وہ لوگ
میں کئی روز مر جاتا ہوں
تیری ناراضگی مجھے مارتی ہے
میں کئی روز سے جیتا ہوں بہت
تیرا پچھتاوا مجھے زندہ کیسے رکھتا ہے
مجھ سے ناراض نہ ہو
تیری ناراضگی سے شامیں بھی اڑاتی ہیں خاک
مجھ پہ ہنستی ہیں بہت راتیں بھی
اور مجھے دیر تلک تکتی ہیں برساتیں بھی
مجھ سے ناراض نہ ہو
میں نے ملنا بھی ہے بہت ہے تم سے
اور کرنا ہیں بہت باتیں بھی
مجھ سے ناراض نہ ہو
***
Re: Farhat Abbas Shah' Collection
بین۔2
آخر شب تو ابھی دور تھی
کیوں ٹوٹ گرا
وہ ستارہ کہ جیسے سر پہ چمکنا تھا ابھی
کیسے دوپہر پہ ڈھل آئی اچانک کوئی ویران سی شام
ہم تو پہلے ہی بہت زرد تھے دل کے اپنے
کس نے توڑی خزاں سینے میں
ٹوٹ کر پھیل جاتی ہے بڑی سرعت سے
آنکھ سے روح کی بینائی تلک
جو نظر آتا ہے پیلا ہے بہت
دل کے سرطان سے کل عالم تنہائی تلک
جو سمجھ آتا ہے نیلا ہے بہت
سوگ کا اپنا اثر ہوتا ہے
سوگ میں لگتا ہے آئے ہی نہیں
روگ سے لگتا نکلے ہی نہیں
اس ستارے کا چمکنا خواہش تھی
کون اس خام خیالی کی ہوا میں آتا
درد کی دیدہ دلیری ہے کہ پیشانی پہ آ چمکا ہے
ورنہ بے نور دیاروں میں
چراغوں کا کوئی کام نہیں
***
Re: Farhat Abbas Shah' Collection
بین۔3
کب تلک دل کو چھپا رکھیں گے
دکھ کے دیمک کی نظر پار اتر جاتی ہے
زندگی جیسے گھٹا ٹوپ اندھیرے میں بسر ہوتی ہے
ناگہانی کسی بپھرے ہوئے وحشی کی طرح
روح کی دھول اڑا جاتی ہے
سکھ کی بے سود تمناؤں کی پاداش میں یکطرفہ سزا
آن گرتی ہے کسی غیب سے نادیدگی عدل کے پلڑوں پہ سفر کرتی ہوئی
سو رہے ہوتے ہیں تھک ہار کے پنچھی غم کے
ڈار کے ڈار آ جاتی ہے
کب تلک دل کو چھپا رکھیں گے
خون میں اتری ہوئی موت سے کیا اوجھل ہے
شاخ سے لپٹے ہوئے سانپ کی مانند بہت دھیرے سے
آشیانے کی طرف بڑھتی ہے
جھر جھری بھی نہیں لینے دیتی
بین عزت ہی سہی میت کی مگر بعد کی باتوں سے کبھی
سائباں جڑتے نہیں ٹوٹے ہوئے
آسماں زندہ نہیں ہو جاتے
آسماں مرتے ہیں اور وقت بگڑ جاتا ہے
آسماں مرتے ہیں اور شہر اجڑ جاتا ہے
کون سی صبح جگائیں گے سر عہد وفا، کون سی رات سلا رکھیں گے
صبر کو کوچہ آزاد و بیابان مسافت کی تہی مٹی پر
کب تلک ‘اور بھلا کس کس سے خفا رکھیں گے
کوئی آواز لوٹے گی
کوئی محروم دلاسہ بھی نہیں پلٹے گا
کب تلک دل کو چھپا رکھیں گے
سو گ کا سوگ منا لینے سے کیا ہوتا ہے
***
Re: Farhat Abbas Shah' Collection
اسے مجھ سے محبت نہیں تھی
اسے مجھ سے محبت نہیں تھی
پھر بھی اس نے ہمیشہ تسلیم کیا
کہ میں اس کا آنے والا وقت ہوں
لیکن
اسے یہ علم نہیں تھا
کہ آنے والا وقت ہمیشہ دور ہی دکھائی دیتا ہے
اور پھر اچانک ہی گزر جاتا ہے
یہ بتائے بغیر
کہ وہ گزر رہا ہے
***
Re: Farhat Abbas Shah' Collection
شاید اس طرح تم سمجھ جاؤ
تم نے کہا
بہت سارے ناموں میں لکھا ہوا نام
محبوب نہیں کہلا سکتا
اور بہت ساری تصویروں میں لگی ہوئی تصویر
پسندیدہ ترین
ثابت نہیں ہوتی
جبکہ میرا خیال یہ ہے کہ
بہت سارے نام نہیں ہوں گے تو ایک نام سر فہرست کس طرح آئے گا
اور سب سے زیادہ اپنا کیسے لگے گا
اور اگر کافی ساری تصویریں نہیں ہوں گی
تو ان میں سے ایک کو
اٹھا کر آنکھوں سے لگا لینے کی لذت
کیسے نصیب ہو سکتی ہے
میں کچھ کہہ نہیں سکتا
کہ میں اپنی بات سمجھانے میں کہاں تک کامیاب ہوا ہوں
تم یوں کرو
کہ کسی دن کسی قد آئینے کے سامنے
دیر تک خاموش بیٹھے خود کو جھانکتے رہو اور آنکھوں کو مل مل کے بار بار جھانکو
یا کسی گنبد میں
دیر تک اپنا نام لے کر زور زور سے آوازیں دو
اور پھر کبھی بہت سارے لوگوں کے درمیان خود کو دیکھو
اور بہت ساری آوازیں میں
اپنی آواز سنو
شاید اس طرح تم
زیادہ بہتر طور پر سمجھ سکو
جو میں تمھیں سمجھانا چاہتا ہوں
باتوں سے پہلے بھی اور بعد بھی
باتوں کے درمیان بھی
اور کہیں باتوں کے پیچھے بہت اندر بھی
شام ہر روز کیوں آ جاتی ہے
اداس اور خاموش
اور سوگوار
تم ہر روز کیوں آ جاتے ہو
ہر روز اور بہت زیادہ
***