ہم ایک رستہ گلی کا اس کی دکھا کے اس کو ہوئے پشیماں
یہ حضرت خضر کو جتا دو کسی کی تم رہبری نہ کرنا
Printable View
ہم ایک رستہ گلی کا اس کی دکھا کے اس کو ہوئے پشیماں
یہ حضرت خضر کو جتا دو کسی کی تم رہبری نہ کرنا
بیاں درد فراق کیا کہ ہے وہاں اپنی یہ حقیقت
جو بات کرنی تو نالہ کرنا نہیں تو وہ بھی کبھی نہ کرنا
مدار ہے ناصحو تمھی پر تمام اب اس کی منصفی کا
زرا تو کہنا خدا لگی بھی فقط سخن پروری نہ کرنا
دل لےکے مفت کہتے ہیں کہ کام کا نہیں
اُلٹیشکایتیں ہوئیں، احسان تو گیا
دیکھاہے بُت کدے میں جو اے شیخ، کچھ نہ پوچھ
ایمانکی تو یہ ہے کہ ایمان تو گیا
افشائےرازِ عشق میں گو ذلتیں ہوئیں
لیکن اُسےجتا تو دیا، جان تو گیا
گو نامہبر سے خوش نہ ہوا، پر ہزار شکر
مجھ کووہ میرے نام سے پہچان تو گیا
بزمِ عدومیں صورت پروانہ دل میرا
گو رشکسے جلا تیرے قربان تو گیا
ہوش وہواس و تاب و تواںداغجا چکے
اب ہمبھی جانے والے ہیں سامان تو گیا
ہم تصور میں بھی جو بات ذرا کہتے ہیں
سب میں اڑ جاتی ہے ظالم اسے کیا کہتے ہیں