جیسے یہ اب ہیں کُند نہ تھیں اِن کی یوں سُریں
دیکھے نہیں تھے ایسے کبھی نغمہ گر اداس
Printable View
جیسے یہ اب ہیں کُند نہ تھیں اِن کی یوں سُریں
دیکھے نہیں تھے ایسے کبھی نغمہ گر اداس
گزر رہا ہوں مگر وقت کے ارادے سے
مرا وجود بندھا ہے ہوا کے دھاگے سے
یہ چاند ٹوٹ کے قدموں میں کیوں نہیں گرتا
یہ کھینچتا ہے مجھے چاندنی کے دھاگے سے
کسے پکاروں یہاں کون چل کے آئے گا
یہاں پہ لوگ نظر آئے بھی تو آدھے سے
ساقط ہُوا ہے جیسے اُبھرتے ہی آفتاب
اب کے کچھ اِس طرح سے ہوئے بام و در اداس
میں اس جگہ سے کہیں اور جا نہیں سکتا
بندھا ہوا ہوں مکمل کسی کے وعدے سے
تو بھی آ جائے یہاں اور مرا بچپن بھی
ختم ہو جائے کہانی بھی ہر اک الجھن بھی
حیراں نہیں تھے یوں کبھی اشکوں کے آئینے
اُترا نہیں تھا اِن میں نگر کا نگر اداس
یوں تو اٹا نہ تھا کبھی گردِ سکوت سے
راہوں میں اِس طرح تو نہ تھا ہر شجر اداس
دونوں پہ موسموں کا اثر یوں کبھی نہ تھا
ششدر ہوں میں اِدھر تو اُدھر میرا گھر اداس