Re: Mansoor Afaq's Collections
کسی کا نام مکاں کی پلیٹ پر لکھا
یہ انتظار کدہ ہے ، یہ گیٹ پر لکھاا
پھر ایک تازہ تعلق کو خواب حاضر ہیں
مٹا دیا ہے جو پہلے سلیٹ پر لکھا
میں دستیاب ہوں ، اک بیس سالہ لڑکی نے
جوارِ ناف میں ہیروں سے پیٹ پر لکھا
لکھا ہوا نے کہ بس میری آخری حد ہے
’اب اس اڑان سے اپنے سمیٹ پر‘ لکھا
جہانِ برف پگھلنے کے بین لکھے ہیں
ہے نوحہ آگ کی بڑھتی لپیٹ پر لکھا
جناب ِ شیخ کے فرمان قیمتی تھے بہت
سو میں نے تبصرہ ہونٹوں کے ریٹ پر لکھا
ہے کائنات تصرف میں خاک کے منصور
یہی فلک نے زمیں کی پلیٹ پر لکھا
Re: Mansoor Afaq's Collections
آنکھیں مری تھیں جھیل سا سپنا کہیں کا تھا
مرغابیوں کا سرمئی جوڑا کہیں کا تھا
اے دھوپ گھیر لائی ہے میری ہوا جسے
وہ آسماں پہ ابر کا ٹکرا کہیں کا تھا
کچھ میں بھی تھک گیا تھا طوالت سے شام کی
کچھ اس کا انتظار کمینہ کہیں کا تھا
جلنا کہاں تھا دامنِ شب میں چراغِ غم
پھیلا ہوا گلی میں اجالا کہیں کا تھا
حیرت ہے جا رہا ہے ترے شہر کی طرف
کل تک یہی تو تھا کہ یہ رستہ کہیں کا تھا
پڑھنے لگا تھا کوئی کتابِ وفا مگر
تحریر تھی کہیں کی ، حوالہ کہیں کا تھا
چہرہ بھی اپنا تھا ، مری آنکھیں بھی اپنی تھیں
شیشے میں عنکبوت کا جالا کہیں کا تھا
آخر خبر ہوئی وہی میرا مکان ہے
منظر جو آنکھ کو نظر آتا کہیں کا تھا
کھلتی کسی چراغ پہ کیسے شبِ فراق
آنکھیں کہیں لگی تھیں دریچہ کہیں کا تھا
کیا پوچھتے ہو کتنی کشش ہے گناہ میں
آیا کہیں ہوں اور ارادہ کہیں کا تھا
اتری کہیں پہ اور مرے وصل کی اڑان
منصور پاسپورٹ پہ ویزہ کہیں کا تھا
Re: Mansoor Afaq's Collections
جب قریہ ء فراق مری سرزمیں ہوا
برق تجلٰی اوڑھ لی سورج نشیں ہوا
جا کر تمام زندگی خدمت میں پیش کی
اک شخص ایک رات میں اتنا حسیں ہوا
میں نے کسی کے جسم سے گاڑی گزار دی
اور حادثہ بھی روح کے اندر کہیں ہوا
ڈر ہے کہ بہہ نہ جائیں در و بام آنکھ کے
اک اشک کے مکاں میں سمندر مکیں ہوا
ہمت ہے میرے خانہ ء دل کی کہ بار بار
لٹنے کے باوجود بھی خالی نہیں ہوا
منظر جدا نہیں ہوا اپنے مقام سے
ہونا جہاں تھا واقعہ بالکل وہیں ہوا
کھڑکی سے آ رہا تھا ابھی تو نظر مجھے
یہ خانماں خراب کہاں جاگزیں ہوا
سینے کے بال چھونے لگی ہے دھکتی سانس
منصور کون یاد کے اتنے قریں ہوا
Re: Mansoor Afaq's Collections
اس نے پہلے مارشل لاء مرے انگن میں رکھا
میری پیدائش کا لمحہ پھر اسی سن میں رکھا
صحن میں پھیلی ہوئی ہے گوشت جلنے کی سڑاند
جیسے سینے میں نہیں کچھ اس نے اوون میں رکھا
جب سوئمنگ پول کے شفاف پانی سے ملی
موتیوں والا فقط اک ہار گردن میں رکھا
ہونٹ ہیٹر پہ رکھے تھے اس کے ہونٹوں پر نہیں
تھا جہنم خیز موسم اس کے جوبن میں رکھا
سانپ کو اس نے اجازت ہی نہیں دی وصل کی
گھر کے دروازے سے باہر دودھ برتن میں رکھا
میں اسے منصور بھیجوں کس لئے چیتر کے پھول
جس نے سارا سال مجھ کو غم کے ساون میں رکھا
Re: Mansoor Afaq's Collections
پیڑ پر شعر لگے ، شاخ سے ہجراں نکلا
اور اس ہجر سے پھر میرا دبستاں نکلا
رات نکلی ہیں پرانی کئی چیزیں اس کی
اور کچھ خواب کے کمرے سے بھی ساماں نکلا
نقش پا دشت میں ہیں میرے علاوہ کس کے
کیا کوئی شہر سے پھر چاک گریباں نکلا
خال و خد اتنے مکمل تھے کسی چہرے کے
رنگ بھی پیکرِ تصویر سے حیراں نکلا
لے گیا چھین کے ہر شخص کا ملبوس مگر
والی ء شہر پناہ ، بام پہ عریاں نکلا
صبح ہوتے ہی نکل آئے گھروں سے پھر لوگ
جانے کس کھوج میںپھر شہر ِ پریشاں نکلا
وہ جسے رکھا ہے سینے میں چھپا کر میں نے
اک وہی آدمی بس مجھ سے گریزاں نکلا
زخم ِ دل بھرنے کی صورت نہیں کوئی لیکن
چاکِ دامن کے رفو کا ذرا امکاں نکلا
ترے آنے سے کوئی شہر بسا ہے دل میں
یہ خرابہ تو مری جان ! گلستاں نکلا
زخم کیا داد وہاں تنگی ء دل کی دیتا
تیر خود دامنِ ترکش سے پُر افشاں نکلا
رتجگے اوڑھ کے گلیوں کو پہن کے منصور
جو شب ِ تار سے نکلا وہ فروزاں نکلا
Re: Mansoor Afaq's Collections
آپ کا غم ہی علاجِ غم دوراں نکلا
ورنہ ہر زخم نصیب سر مژگاں نکلا
اور کیا چیز مرے نامہ ء اعمال میں تھی
آپ کا نام تھا بخشش کا جو ساماں نکلا
محشرِ نور کی طلعت ہے ،ذرا حشر ٹھہر
آج مغرب سے مرا مہر درخشاں نکلا
آپ کی جنبشِ لب دہر کی تقدیر بنی
چشم و ابرو کا چلن زیست کا عنواں نکلا
ظن و تخمین ِ خرد اور مقاماتِ حضور؟
شیخ عالم تھا مگر بخت میں ناداں نکلا
جب بھی اٹھی کہیں تحریک سحر کی منصور
غور کرنے پہ وہی آپ کا احساں نکلا
Re: Mansoor Afaq's Collections
درد مرا شہباز قلندر ، دکھ ہے میرا داتا
شام ہے لالی شگنوں والی ، رات ہے کالی ماتا
اک پگلی مٹیار نے قطرہ قطرہ سرخ پلک سے
ہجر کے کالے چرخ ِکہن پر شب بھرسورج کاتا
پچھلی گلی میں چھوڑ آیا ہوں کروٹ کروٹ یادیں
اک بستر کی سندر شکنیں کون اٹھا کر لاتا
شہرِ تعلق میں اپنے دو ناممکن رستے تھے
بھول اسے میں جاتا یا پھر یاد اسے میں آتا
ہجرت کر آیا ہے ایک دھڑکتا دل شاعر کا
پاکستان میں کب تک خوف کو لکھتا موت کو گاتا
مادھولال حسین مرا دل ، ہر دھڑکن منصوری
ایک اضافی چیز ہوں میں یہ کون مجھے سمجھاتا
وارث شاہ کا وہ رانجھا ہوں ہیر نہیں ہے جس کی
کیسے دوہے بُنتا کیسے میں تصویر بناتا
ہار گیا میں بھولا بھالا ایک ٹھگوں کے ٹھگ سے
بلھے شاہ سا ایک شرابی شہر کو کیا بہکاتا
میری سمجھ میں آ جاتا گر حرف الف سے پہلا
باہو کی میں بے کا نقطہ بن بن کر مٹ جاتا
ذات محمد بخش ہے میری۔۔شجرہ شعر ہے میرا
اذن نہیں ہے ورنہ ڈیرہ قبرستان لگاتا
میں ہوں موہجوداڑو۔مجھ میں تہذبیوں کی چیخیں
ظلم بھری تاریخیں مجھ میں ، مجھ سے وقت کا ناطہ
ایک اکیلا میں منصور آفاق کہاں تک آخر
شہرِ وفا کے ہر کونے میں تیری یاد بچھاتا
Re: Mansoor Afaq's Collections
پیر فرید کی روہی میں ہوں ، مجھ میں پیاس کا دریا
ڈوب گیا ہے تھل مارو میں میری آس کا دریا
عمرِ رواں کے ساحل پر اوقات یہی ہیں دل کے
صبح طلب کی بہتی کشتی ، شب وسواس کا دریا
سورج ڈھالے جاسکتے تھے ہر قطرے سے لیکن
یوں ہی بہایا میں نے اشکوں کے الماس کا دریا
جس کے اک اک لمحے میں ہے صدیوں کی خاموشی
میرے اندر بہتا جائے اس بن باس کا دریا
لوگ ہیں آبِ چاہ شباں کے لوگ حمام سگاں کے
شہر میں پانی ڈھونڈھ رہے ہو چھوڑ کے پاس کا دریا
تیری طلب میں رفتہ رفتہ میرے رخساروں پر
سوکھ رہا ہے قطرہ قطرہ تیز حواس کا دریا
سورج اک امید بھرا منصور نگر ہے لیکن
رات کو بہتا دیکھوں اکثر خود میں یاس کا دریا
Re: Mansoor Afaq's Collections
ایک حیرت کدہ ہے نگر رات کا
آسمانوں سے آگے سفر رات کا
بام و در تک گریزاں سویروں سے ہیں
میرے گھر سے ہوا کیا گزر رات کا
صبح نو تیرے چہرے کے جیسی سہی
جسم ہے برگزیدہ مگر رات کا
چل رہا ہوں یونہی کب کڑی دھوپ میں
آ رہا ہے ستارہ نظر رات کا
پوچھ منصور کی چشمِ بے خواب سے
کتنا احسان ہے شہر پر رات کا
Re: Mansoor Afaq's Collections
میں جنابِ صدر ملازمت نہیں چاہتا
مگر اب فریب کی سلطنت نہیں چاہتا
مرا دین صبح کی روشنی مری موت تک
میں شبوں سے کوئی مصالحت نہیں چاہتا
میں حریصِ جاہ و حشم نہیں اِسے پاس رکھ
یہ ضمیر زر سے مباشرت نہیں چاہتا
کرے آکے گفت و شیند مجھ سے چراغ بس
کسی شب زدہ کی مشاورت نہیں چاہتا
میں کنارِ آب رواں نہیں شبِ یاد میں
کسی چاندنی سے مناسبت نہیں چاہتا
مجھے موت تیرے محاصرے میں قبول ہے
میں عدو سے کوئی مفاہمت نہیں چاہتا
شبِ ظلم سے میں لڑوں گا آخری وار تک
کوئی ظالموں سے مطابقت نہیں چاہتا
مجھے جلتی کشیاں دیکھنے کی طلب نہیں
میں مزاحمت میں مراجعت نہیں چاہتا
مرے پاس اب کوئی راستہ نہیں صلح کا
مجھے علم ہے تُو مخالفت نہیں چاہتا
انہیں ’بھوربن‘ کی شکار گاہ عزیز ہے
ترا لشکری کوئی پانی پت نہیں چاہتا