بھول جانے کی آرزو کی ہے
اور شدت سے یاد آئے ہو
Printable View
بھول جانے کی آرزو کی ہے
اور شدت سے یاد آئے ہو
یوں بھی ہونے لگا جنوں میں کبھی
میرے ہونٹوں سے مسکرائے ہو
کس طرح میں تمہیں چھپا رکھوں
تم مری روح میں سمائے ہو
کیسے مانوں کہ تم نہیں میرے
کیسے کہہ دوں کہ تم پرائے ہو
میں سمندر کے پار کیا آؤں
تم تو اک ساحلی سرائے ہو
اس نے وفا کی اور ہی رسمیں بنائی ہیں
مجھ سے بڑھا کے غیر سے نظریں ملائی ہیں
سب دیکھتے ہیں اس کے ہی ایوان کی طرف
جس نے مری مکان کی اینٹیں چرائی ہیں
میں جانتی ہوں اس کی عبادت کے مرحلے
میرے ہی ساتھ اس نے تو عیدیں منائی ہیں
وہ صبح میرے گھر میں تھا جو شام کھو گیا
بستر کی اب تلک نہیں شکنیں ہٹائی ہیں
اشکوں کے بعد اپنا لہو دے کے کاٹ لیں
سمجھی تھی میں کہ درد کی فصلیں پرائی ہیں