دامِ صراطِ وقت سے کیسے گزرنا اب مجھے
ویسے تو دے گئے سبھی جاتے ہوئے دعا مجھے
Printable View
دامِ صراطِ وقت سے کیسے گزرنا اب مجھے
ویسے تو دے گئے سبھی جاتے ہوئے دعا مجھے
میرا سفر مرا ہی تھا اٹھتے کسی کے کیا قدم
اپنے لئے تھا کھوجنا اپنا ہی نقشِ پا مجھے
لگتا ہے چل رہی ہوں میں روحِ تمام کی طرف
جیسی تھی ابتداء مجھے ویسی ہے انتہا مجھے
چاندنی رات میں مہتاب سلگتا دیکھوں
نیند کی آگ میں اک خواب کو جلتا دیکھوں
آسماں پر کئی تارے ہیں مگر کچھ بھی نہیں
آسماں سے پرے اک نور دمکتا دیکھوں
کل کہ دہلیز پہ ٹھوکر سے سنبھالا تھا جسے
آج اس شخص کو دریا میں اترتا دیکھوں
آرزو ہے کسی بچے کے کھلونے کی طرح
دل اسی کانچ کی گڑیا سے بہلتا دیکھوں
راز کی بات سرِ بزم ہو افشا کیوں کر
ہاں مگر دل سے لہو روز ٹپکتا دیکھوں
سینک لیتی ہوں جگر درد کے انگاروں سے
روپ اس آنچ کی حدت میں سنورتا دیکھوں
غم کہ ہر بار نئی شکل میں ڈھل جاتا ہے
میں تو خوابوں کو سرابوں میں بدلتا دیکھوں