ہم اپنے سامنے ہر لمحہ مرتے رہتے تھے
ہمارے دِل میں کسی مقبرے کا ہونا تھا
Printable View
ہم اپنے سامنے ہر لمحہ مرتے رہتے تھے
ہمارے دِل میں کسی مقبرے کا ہونا تھا
تم آ سکے نہ شبِ قدر کے اجالے میں
وگرنہ وصل بڑے مرتبے کا ہونا تھا
تمام رات بلاتا رہا ہے اِک تارہ
افق کے پار کسی معجزے کا ہونا تھا
کسی کے سامنے اٹھی نظر تو بہہ نکلا
ہماری آنکھ میں کیا آبلے کا ہونا تھا
یہ کیا کہ ساتھ ازل سے ہے ہمسفر منزل
کسی جگہ تو کسی مرحلے کا ہونا تھا
ہم اپنی ذات سے باہر نکل ہی آئے ہیں
کبھی ہمیں بھی کسی راستے کا ہونا تھا
میری پہچان رکھا درد کا دھبہ تُو نے
خالی تصویر میں رہنے دیا چہرہ تُو نے
تیری آواز مرے کان سے جاتی ہی نہیں
بھول جاؤں تجھے اک روز کہا تھا تُو نے
رات چمنی سے لگا تھا کوئی امید کا چاند
دیکھ کھولا ہی نہیں اپنا دریچہ تُو نے
دل کے کمرے میں کہیں کوئی کمی آج بھی ہے
جانے کس حسن تناسب سے سجایا تُو نے