چھوڑو عہدِ وفا کی باتیں کیوں جھوٹے اقرار کریں
کل میں بھی شرمندہ ہوں گا کل تم بھی پچھتاؤ گے
Printable View
چھوڑو عہدِ وفا کی باتیں کیوں جھوٹے اقرار کریں
کل میں بھی شرمندہ ہوں گا کل تم بھی پچھتاؤ گے
رہنے دو یہ پند و نصیحت ہم بھی فرازؔ سے واقف ہیں
جس نے خود سو زخم سہے ہوں اُس کو کیا سمجھاؤ گے
چند لمحوں کے لیے تُو نے مسیحائی کی
پھر وہی میں ہوں وہی عمر ہے تنہائی کی
کس پہ گزری نہ شبِ ہجر ، قیامت کی طرح
فرق اتنا ہے کہ ہم نے سخن آرائی کی
اپنی باہوں میں سمٹ آئی ہے وہ قوسِ قزح
لوگ تصویر ہی کھینچا کیے انگڑائی کی
غیرتِ عشق بجا ،طعنۂ یاراں تسلیم
بات کرتے ہیں مگر سب اُسی ہرجائی کی
اُن کو بھولے ہیں تو کچھ اور پریشاں ہیں فرازؔ
اپنی دانست میں دل نے بڑی دانائی کی
زعم ایسا کیا کہ لطفِ دوست ٹھکرانا پڑے
یہ طبیعت ہے تو شاید جاں سے بھی جانا پڑے
خانہ ویرانی تو ہوتی ہے مگر ایسی کہاں
اپنی آنکھوں سے خود اپنا گھر نہ پہچانا پڑے
رسم چل نکلی عجب اب میکدے کی خیر ہو
ہے وہی جمشید جس کے ہاتھ پیمانہ پڑے