نامرادی کا یہ عالم ہے کہ اب یاد نہیں
تُو بھی شامل تھا کبھی میری تمناؤں میں
Printable View
نامرادی کا یہ عالم ہے کہ اب یاد نہیں
تُو بھی شامل تھا کبھی میری تمناؤں میں
میں کہ پر شور سمندر تھے مرے پاؤں میں
اب کہ ڈوبا ہوں تو سوکھے ہوئے دریاؤں میں
فراز مصرعۂ آتش پہ کیا غزل کہتے
زبانِ غیر سے کیا شرحِ آرزو کرتے
ہزار کوس پہ تُو اور یہ شام غربت کی
عجیب حال تھا پر کس سے گفتگو کرتے
چمن پرست نہ ہوتے تو اے نسیمِ بہار
مثالِ برگِ خزاں تیری جستجو کرتے
یہ قرب مرگِ وفا ہے اگر خبر ہوتی
تو ہم بھی تجھ سے بچھڑنے کی آرزو کرتے
بہت دنوں سے ہے بے آب چشمِ خوں بستہ
وگرنہ ہم بھی چراغاں کنارِ جُو کرتے
گُلوں سے جسم تھے شاخِ صلیب پر لرزاں
تو کس نظر سے تماشائے رنگ و بُو کرتے
کبھی تو ہم سے بھی اے ساکنانِ شہرِ خیال
تھکے تھکے ہوئے لہجے میں گفتگو کرتے
بس اک نعرۂ مستاں دریدہ پیرہنو
کہاں کے طوق و سلاسل بس ایک ہُو کرتے