وہ کچھ اس طرح بھی تقدیر بنا دیتا ہے
درد کی روح کو جاگیر بنا دیتا ہے
Printable View
وہ کچھ اس طرح بھی تقدیر بنا دیتا ہے
درد کی روح کو جاگیر بنا دیتا ہے
اک مسیحائی اتر آتی ہے شعروں میں میرے
کوئی الفاظ کو تاثیر بنا دیتا ہے
نقش کرتا ہے اجاگر میری آوازوں کے
بات کرتا ہوں تو تصویر بنا دیتا ہے
آنکھ معصوم ہے لیکن کوئی کرنی والا
ہدف دل کے لیے تیر بنا دیتا ہے
گھیر لیتا ہے نشانات قدم بھی فرحت
عشق کو حلقہ زنجیر بنا دیتا ہے
موت کا اعتبار کر لیتے
دو گھڑی انتظار کر لیتے
درد منہ پھیر کر نہیں جاتا
درد ہی اختیار کر لیتے
لوٹ کر پھر یہی ہوا ہوتا
تم کسی سے بھی پیار کر لیتے
اے میرے دل کبھی کبھی کوئی
شام ہی خوشگوار کر لیتے
جھوٹ کی نوکری سے بہتر تھا
خود کو بے روزگار کر لیتے