Re: Farhat Abbas Shah's Collection
عشق اک مجنون بوڑھا دیوتا
عشق اک مجنون بوڑھا دیوتا
ناشناسائی پہ حیراں
بے حسی پر سخت نالاں دہر کی
ہاتھ میں اک لے کے پڑیا زہر کی
بال بکھرائے
سمیٹے دھجیاں ملبوس کی
پاؤں میں پہنے ہوئے زخموں کی نعلینِ کہن
پتھروں کو کھٹکھٹاتا پھر رہا ہے
ڈالتا پھرتا ہے نظریں قہر کی
اپنے جھولے میں لیے کچھ بت پرانے
اور کچھ گڑیاں کسی بیتے زمانے کی
نہ جانے زیر لب کیا بڑبڑاتا پھر رہا ہے
بے خبر ہے اپنی حالت سے
خلقت ہنس رہی ہے ہر گلی کے موڑ پر
اور سن رہا ہے سسکیاں بھی فطرت نمناک کی
پر بیچ رستوں کی لگامیں تھام کر بھی
کائناتوں تجردّ انگلیوں سے باندھ کر بھی
دل میں کوئی غم چھپائے پھر رہا ہے
وقت کی دھڑکن پہ رکھتا اپنے قدموں کے نشاں
چکرا رہا ہے
اڑتے پھرتے کاغذوں پتوں پروں کے درمیاں
ہنس رہا ہے
روتے روتے
رو رہا ہے ہنستے ہنستے
پتھروں، پتھر گروں کے درمیاں
عشق اک مجنون بوڑھا دیوتا
ہاتھ میں اک لے کے پڑیا زہر کی
***
Re: Farhat Abbas Shah's Collection
ہم مسافر ہیں میری جان
ہم مسافر ہیں میری جان مسافر تیرے
ہم تو بارش سے بھی ڈر جاتے ہیں
اور دھوپ سے بھی
اپنے قدموں کے نشانوں سے مٹائیں جو لہو کے دھبے
راستے غصے میں آ جاتے ہیں
ہم مسافر ہںی
کرایوں کو ترستے ہوئے خیموں میں گھرے
گھر سے گھبرائے ہوئے یونہی ہوا کرتے ہیں
اجنبی شہروں کے وہموں میں پڑے
خوف اور عدم تحفظ سے چراتے ہیں نگاہیں
تو کہیں اور ہی جا پڑتے ہیں
کب تلک کون ہمیں رکھے گا مہمان محبت کے سوا
اور کسی روز ہمیں یہ بھی کہے گی کہ خدا ہی حافظ
ہم جو لوگوں سے جھجھکتے ہیں تو مجبوری ہے
ہم جو رستوں میں بھٹکتے ہیں تو محصوری ہے
ہم مسافر ہیں میری جان مسافر تیرے
ہم اگر تجھ سے بچھڑتے ہیں تو مہجوری ہے
***
Re: Farhat Abbas Shah's Collection
پتے
پرانے زرد پتوں کے بہانے
درختوں سے اتر آئے زمانے
یہ پتے خاک کا زیور نہیں تھے
یہ سارے ہی بلندی پر کہیں تھے
جو مارے مارے پھرتے ہیں دیوانے
درختوں سے اتر آئے زمانے
ہیں اپنے درد کے ہمراز پتے
ہر اک موسم سے ہیں ناراض پتے
انھیں اب کون آئے گا منانے
درختوں سے اتر آئے زمانے
یہ پیلے دل ہوا کے آسرے پر
پڑے ہیں بس خدا کے آسرے پر
کوئی آیا نہیں ان کو اٹھانے
درختوں سے اتر آئے زمانے
کبھی شاخوں سے تھے پھوٹے پرندے
یہ ہرجائی بڑے جھوٹے پرندے
یہ پتے یہ خزاؤں کے فسانے
درختوں سے اتر آئے زمانے
پرانے زرد پتوں کے بہانے
درختوں سے اتر آئے زمانے
***
Re: Farhat Abbas Shah's Collection
یادداشت
تمھیں یاد ہے؟
تم نے مجھے کبھی خط نہیں لکھا
اور نہ کبھی کوئی سندیسہ بھجوایا ہے
تم نے کبھی میرا انتظار نہیں کیا
اور نہ کبھی بلوا بھیجا ہے
تمھیں یاد ہے ؟
تم نے مجھے کبھی چُھوا نہیں
اور نہ کبھی خواہش کی ہے
تم نے کبھی کسی ایسی خواہش کا اظہار نہیں کیا جو میں چاہتا ہوں
نہ تم نے کبھی یہ سوچا ہے کہ میں کیا چاہتا ہوں
تم نے کبھی کسی درخت پر میرا نام نہیں لکھا
کسی کاغذ پر بھی نہیں
تمھیں یاد ہے ؟
یاد ہے تمھیں ؟
نہیں نا ؟
مجھے تو سب کا سب
بہت بہت بہت اچھی طرح یاد ہے
Re: Farhat Abbas Shah' Collection
آنکھوں کے پار چاند
اس کائنات رنگ میں
دنیائے سنگ میں
ہم قید تو نہیں تھے مگر
اس کے باوجود
آزادیوں نے لطف رہائی نہیں دیا
چاہا بہت کہ اپنے ہی اندر کبھی کہیں
اتریں، اتر کے خود کو تلاشیں کچھ اس طرح
ہاتھوں میں اپنا کھوج ہو
دل میں وصال آگ
پیروں میں آگہی کی بلندی راستے
لیکن بدن سے روح کی ان منزلوں کے بیچ
وہ رات تھی کہ کچھ بھی سمجھائی نہیں دیا
کوئی وجود تھا کہ جو طاری تھا ذات پر
آنکھوں کے پار چاند دکھائی نہیں دیا
***
Re: Farhat Abbas Shah' Collection
محبت کرنے والی لڑکی
جیسے تپتے صحراؤ ں میں گم کردہ راہ مسافر
جیسے خالی رستوں پر مدتوں سے اٹکی ہوئی نمناک نگاہ
جیسے ویران ہو جانے والا جزیرہ
جیسے وسیع و عریض فضاؤ ں میں دور دور تک تنہا بدلی
یا
جیسے اجنبی شہر میں اپنوں سے بچھڑ جانے والی بچی
***
Re: Farhat Abbas Shah' Collection
ِ
ساجن سیدھا سادہ
ابھی سے پوچھ رہا ہے مجھ سے ساجن سیدھا سادہ
تم کو پیار زیادہ ہے یا مجھ کو پیار زیادہ
جھوٹ بھی کہہ دو تب بھی مانوں
میں تو اپنا ہی جانوں
میں تم سے کچھ بھی نہ کہوں گی
کرتی ہوں یہ وعدہ
تم کو پیار زیادہ ہے یا مجھ کو پیار زیادہ
پیار کے لاکھوں دیپ جلائیں
اک دوجے کا ساتھ نبھائیں
اک دوجے کا مان رکھیں گے
کر لیں آج ارادہ
تم کو پیار زیادہ ہے یا مجھ کو پیار زیادہ
ویرانی کو شہر بنا دیں
چاند کا پہلا پہر بنا دیں
دل میں سب جیون آ جائے
اتنا کریں کشادہ
تم کو پیار زیادہ ہے یا مجھ کو پیار زیادہ
***
Re: Farhat Abbas Shah' Collection
اے عشق مجھے آزاد کرو
کتنی ہی
زنجیریں
دل میں
نوکیلے تپتے آہن سے بھی
کہیں زیادہ چبھتی ہیں
اور گھٹن کی بوجھل دیواریں تو
جیسے پشت اور سینے پر تعمیر ہوئی ہوں
عجب عجب سے پچھتاوے
اور بلا جواز پیشمانی سی
سانسوں اور آنکھوں میں اکثر
پسی ہوئی مرچوں کی سُلگن دور دور تک بھر دیتی ہے
بے چینی کے حلقے روح کو
سختی سے جکڑے رکھتے ہیں
آنسو گلے کو
اندر سے پکڑے رکھتے ہیں
ہجر کی جیلیں
شہر کی جیلوں سے بڑھ چڑھ کر
عمر دبوچ لیا کرتی ہیں
جو کچھ کرنا ہو آخر میں
پہلے سوچ لیا کرتی ہیں
***
ِ
Re: Farhat Abbas Shah' Collection
غم کے بیابان میں آ
ہم سفر
آ راہ کے کاٹنے چنیں
گر اسی میں کچھ سفر طے ہو گیا تو
اک غنیمت جان لیں گے
مان لیں گے کچھ سفر طے ہو گیا ہے
ورنہ ان راہوں میں تو اک خار کی تلوار بھی
کچھ کم نہیں ہے
ایک منزل پڑاؤ ان گنت
ایک پڑاؤ اور ہزاروں منزلیں
رنگ، خوشبو، چھاؤں، یخ بستہ شجر کا
اور سکوں کا کیوں کوئی دھوکہ سہیں، سپنے بنیں
لاشعور بے قراری
جسم کے گھاؤ سے بدتر ہے
کبھی تو آ
کھلی دیوانگی سے
دوسروں کے ساتھ اپنی بھی سبھی چیخیں سنیں
ہم سفر آ راہ کے کانٹے چنیں
***
Re: Farhat Abbas Shah' Collection
پس کائنات
نیم عریاں شب نگوگوں
آنکھ میں
آنکھ میں خواب بھی
خواب بھی خوف کا
آندھیوں کے تلے
ذات کی ریت پر
بھید کی انگلیوں کے کسی چھید میں
جاگتی زندگی بھاگتی زندگی
نیم عریاں شب نیلگوں
درد میں
درد میں آس بھی
آس بھی موت کی
ایک دکھ کے تلے
ان گنت دائرے
دائروں میں گھری بے نوا زندگی بے وفا زندگی
نیم عریاں شب نیلگوں
شہر میں
شہر میں قہر میں
قہر بھی وقت کا
وقت کے بے بصر سائباں کے تلے
مسئلہ رخت کا
ہر گھڑی زہر کی دلدلوں میں بجھی
پل بہ پل اپنے پر نوچتی زندگی سوچتی زندگی
نیم عریاں شب نیلگوں
راکھ میں بھاگ بھی
بھاگ بھی جبر کے
صبر کرتے کراتے پہنچ آئے ہیں قبر کی آگ تک
آگ میں ڈھونڈتے ڈھونڈتے تھک گئیں
اتنی صدیاں مگر کچھ ملا ہے کہاں
سائباں، آسماں، آستاں سب جہاں رائیگاں
رائیگاں زندگی بے نشاں زندگی
نیم عریاں شب نیلگوں
خاک میں
خاک بھی خواب کی
خواب بھی خوف کا
خوف سے ہانپتی کانپتی زندگی
خوف سے ہانپتی کانپتی زندگی
***