قید کی عمر ایسی راس آئی
سو رہی بازوں ہی میں پرواز
Printable View
قید کی عمر ایسی راس آئی
سو رہی بازوں ہی میں پرواز
تم ہی کہو کہ ہو سکے گا مرا علاج
اگلی محبتوں کے مرے زخم آشنا
ہزار راہ چلے پھر وہ رہ گزر آئی
کہ اک سفر مین رہے اور ہر سفر سے گئے
ترک تعلق ایک قیامت پرسش ِ یاراں اور عذاب
کیا بتلائیں ہجر زدہ دل کیسے کیسے دکھتا ہے
ہوں خود اپنی طبعیت سے پریشاں
مزاج ِ دہر تو برہم نہیں ہے
مجھے کچھ زخم ایسے بھی ملے ہیں
کہ جن کا وقت بھی مرہم نہیں ہے
کھنچی تھی جس سے حرف میں اک صورت ِ خیال
وہ خواب دیکھتی ہوئی وحشت نہیں رہی
ہم سے سادہ لوگ اکثر آ گئے دھوکے میں
کتنا دل نشیں لہجہ ہے ترے تکلم کا
میں اعتراف ِ شکست بہار کر لوں گا
ذرا اڑے تو سہی بوئے زلف ِ عنبر یار
اُس لمحے تو گردش ِ خوں نے میری یہ محسوس کیا
جیسے سر پہ زمیں اٹھائے اک رقص پیہم میں ہوں
اب کوئی چھو کے کیوں نہیں آتا ادھر کا جیون انگ
جانتے ہیں پر کیا بتلائیں، لگ گئی کیوں پرواز میں چپ
تم جب سے گئے ہو چاند میرے
راتیں ہوئی ہیں سیاہ لوٹ آؤ
رکھتا نہ کیوں میں روح و بدن اُس کے سامنے
وہ یوں بھی تھا طبیب وہ یوں بھی طبیب تھا
کھا گیا انساں کو آشوبِ معاش
آ گئے ہیں شہر بازاروں کے بیچ
کوئی اس کافر کو اس لمحے سنے
گفتگو کرتا ہے جب یاروں کے بیچ
لگتا ہے جیسے کوئی ولی ہے ظہور میں
اب شام کو کہیں کوئی مے خوار دیکھنا
مہرباں لوگ مرا نام جو چاہے رکھ لیں
ان کے منہ سے تو مجھے ننگ ہے انساں ہونا
اے شہسوارِ حُسن! یہ دل ہے یہ میرا دل
یہ تیری سر زمیں ہے ، قدم ناز سے اٹھا!
میں پوچھ لوں کہ کیا ہے مرا جبر و اختیار
یا رب! یہ مسئلہ کبھی آغاز سے اٹھا
جیسے ہم آغوشیِ جاں کے زمانے ہوں قریب
ان دنوں ایسے نظر آتے ہیں کچھ آثار دوست
ایک شجر ہے جس کی شاخیں پھیلتی جا تی ہیں
کسی شجر میں ہم نے ایسی بات نہیں دیکھی
جاں فزا ہے جو عطا کرتے رہو
بوسۂ لب کی طرح بوسۂ لب
سوائے اپنے کسی کے بھی ہو نہیں سکتے
ہم اور لوگ ہیں لوگو ہمیں ستاؤ نہیں
ایک چہرے میں تو ممکن نہیں اتنے چہرے
کس سے کرتے جو کوئی عشق دوبارا کرتے
انساں کا ہو گا ہا تھ اس میں
اللہ کا جو غضب لکھو گے
ہائے وہ شمع جو اب دور کہیں جلتی ہے
میرے پہلو میں بھی پگھلی ہے سحر ہو نے تک
خالی ہاتھوں کو ملے گی خوشبو
جب ہوا چاہے چرا کر لے جائے
ایسے ملتا نہیں مٹّی کو دوام
بس خدا جس کو بنا کر لے جائے
یار مرا زنجیریں پہنے آیا ہے بازاروں میں *
میں *کہ تماشا دیکھنے والے لوگوں کے ماتم میں ہوں *
ابھی چلا بھی نہ تھا اور رک گئے پاؤں
یہ سوچ کر کہ مرا ہمسفر بھی آتا ہے
لوٹ آنے سے ڈریں اور نہ لوٹیں تو دکھیں *
وہ زمانے جو ترے ساتھ گزارے ہم نے
پاؤں میں تھی آدمی کے کب سے
زنجیرِ گراں بدل گیا ہے
بھید جانے کوئی مگر کیسے
یار کو یار سے جو نسبت ہے
پھر اس طرح کبھی سویا نہ اس طرح جاگا
کہ نیند روح میں تھی اور جاگتا تھا میں
دکھ سے پھر جاگ اٹھی آنکھ ستارے کی طرح
اور سب خواب ترے نام سے منسوب آئے
مجھ پہ طاری ہے رہ ِ عشق کی آسودہ تھکن
تجھ پہ کیا گزری مرے چاند بتا کیوں چپ ہے
اس نے تنہا کبھی نہیں چھوڑا
وہ بھی زنداں میں ہے اسیر کے ساتھ
مرتے ہیں مگر موت سے پہلے نہیں مرتے
یہ واقعہ ایسا ہے کہ دلگیر ہوئے سب
ہر سلسلہ تھا اُس کا خُدا سے ملا ہوا
چُپ ہو کہ لب کُشا ہوا بلا کا خطیب تھا
طعنۂ نشہ نہ دو سب کو کہ کچھ سوختہ جاں
شدتِ تشنہ لبی سے بھی بہک جاتے ہیں
اُترے گا نہ کوئی آسماں سے
اک آس میں دل مگر صدا دے