یہ جو ٹھہراؤ بظاہر ہے، اذیت ہے میری
جو تلاطم مِرے اندر ہے ، سکُوں ہے میرا
Printable View
یہ جو ٹھہراؤ بظاہر ہے، اذیت ہے میری
جو تلاطم مِرے اندر ہے ، سکُوں ہے میرا
اے ابر محبت تو کہیں اور جا کے برس
میں ریت کا ٹیلہ ہوں، میری پیاس بہت ہے
Yehi hai Ibadat Yehi Deen o Emaa'n
K Kam Aye Dunia mai Insa'n k Insa'n
نہ بک سکی بازارِ مصلحت میں کبھی
میری زباں کی صداقت میری انا کی طرح
Haq acha, par us K Liye koi aur maray tou aur acha
Tum bhi koi mansoor ho jo sooli pe Charho, khamosh Raho...!
Wao
~Wafa Ki Aarzoo Karna! ~Safar Ki Justujoo Karna!
~Jo Tum Mayoos Ho Jaao! To Mujh Se Guftugoo Karna!
نکلو جو کبھی ذات کے زنداں سے تود یکھو
آباد ہیں عبرت کے مقاما ت کہاں تک؟
کہیں کہیں کوئی روشنی ہے
جو آتے جاتے سے پوچھتی ہے
کہاں ہے وہ اجنبی مسافر
کہاں گیا وہ اداس شاعر