اب بھی تری نظر میں وہی آب و تاب ہے
ہلکی سی چاندنی ہے ذرا سی شراب ہے
سوئی ہوئی جبیں کے بجھے سے چراغ کو
اب بھی خراج دیتا ہوا آفتاب ہے
سوکھے ہوئے لبوں کی فسردہ روش بہار
ہلکے اثر کی نرم کشیدہ شراب ہے
کولہوں کے زیر و بم میں مصور کی جانکنی
شانوں کی خستگی میں صدائے رباب ہے
باریک و با وقار کمر میں پسی ہوئی
شفاف سیپیوں کی جواں آب و تاب ہے
رفتار کے تھکے ہوئے لہجے میں موجزن
نوخیز ہرنیوں کا ابھرتا شباب ہے
ابرو کے کانپتے ہوئے خط میں گھُلا ہوا
پارہ نہیں تو دردِ دلِ ماہتاب ہے
ترتیب و نظم چھوڑ کے زلفِ سیاہ رنگ
شاعر کی وحشتوں کی دعا کا جواب ہے
بلور سے گلے میں یہ نازک رگوں کا جال
نیلم کی دھاریوں پہ غلافِ شراب ہے
کافری تری شکستہ مزاجی کے بوجھ سے
خلاقِ دو جہاں کی طبیعت خراب ہے
٭٭٭
٭٭٭