گھریلو ٹوٹکے اور ٹوٹکہ
سعد اللہ جان برق
http://www.express.pk/wp-content/upl...94-640x480.JPG
لوگوں کا تو صرف یہ خیال ہے کہ ہم بڑے عالم و فاضل بلکہ دانا دانشور ہیں کم از کم ہمارا یہ خیال ہے کہ لوگوں کا یہ خیال ہے اور خیال کے بارے میں اقوام متحدہ کے چارٹر میں بھی درج ہے کہ ہر کسی کو ہر قسم کا خیال کرنے اور رکھنے کی آزادی ہے اور دنیا کا کوئی قانون اس بشری حق کو سلب نہیں کر سکتا، چنانچہ اگر کچھ لوگ ہمارے بارے میں کوئی خیال رکھتے ہیں اور ہم ان کے بارے میں رکھتے ہیں تو دونوں حق بجانب ہیں لیکن اکثر لوگ یہ بالکل نہیں جانتے کہ ہماری اس دانائی دانشوری اور عالمی فاضلی کا سرچمشہ کیا ہے؟ کہاں ہے اور کس طرف ہے۔بہت سے لوگ یہ خیال کرتے ہیں اور ہمارے خیال میں غلط کرتے ہیں کہ ہماری علمیت، فضلیت دانیت دانشوریت کا منبع کوئی اسکول کالج یا یونی ورسٹی وغیرہ ہے لیکن ایسا بالکل بھی نہیں اس قسم کی چیزوں سے ہمارا جدی پشتی چھتیس کا آکڑا چل رہا ہے ہماری دانائی دانشوری اور علمیت و ’’فضلیت‘‘ کا اصل منبع سرچشمہ اور معدن دراصل اخبارات و رسائل ہیں اور پھر اخبارات و رسائل میں بھی جو بچوں اور خواتین کے صفحے ہوتے ہیں۔
پتہ نہیں آپ اخبارات و رسائل میں بچوں اور خواتین کے صفحات پڑھتے ہیں یا نہیں لیکن اگر نہیں پڑھتے تو فوراً پڑھنا شروع کر دیجیے کچھ ہی دنوں میں آپ بحرالعلوم نہ ہوئے تو فیس واپس، ویسے تو بچوں کے صفحات میں بھی بہت کچھ ہوتا ہے فلسفے سے لے کر منطق تک اور کھیل سے لے کر کود تک یعنی ’’ایں خانہ ھمہ آفتاب‘‘ ہوتا ہے لیکن اصل علوم کا بھنڈار خواتین کے صفحات میں ہوتا ہے، سب سے پہلے تو ان میں جو پکوان اور تراکیب ہوتی ہیں واہ جی خوش ہو جاتا ہے ۔
اگرچہ ان پکوانوں کو پکانے کے لیے کسی پنج ستارہ ہوٹل کے شیف سے رجوع کرنا پڑے گا اور ان میں ’’ڈالنے والی چیزوں‘‘ کو خریدنے کے لیے مکان یا گھر کے کسی فرد کو گروی رکھنا پڑے گا اور پھر اس غرض کے لیے جو کچن اور کچن وئر چاہیے ہوتے ہیں وہ امریکا یا یورپ یا کراچی لاہور اسلام آباد میں خال خال شاید مل جائیں اس لیے ہم صرف وہ تراکیب پڑھ کر بھی خوش ہو لیتے ہیں کیونکہ بزرگوں نے کہا ہے کہ کھانے سے زیادہ کھانے کی امید لذیذ ہوتی ہے، گرمیوں میں گاجر اور سردیوں میں آموں کے اچار مربے بھی خوب ہوتے ہیں لیکن اصل چیز اور علم کا بحر نا پیدا کنارا وہ ’’ٹوٹکے‘‘ ہوتے ہیں جو ان صفحات کا لازمی آئٹم ہوتے ہیں، ہمارے مبلغ علم کا واحد منبع سرچشمہ اور معدن یہی گھویلو ٹوٹکے ہوتے ہیں۔
اگرچہ ان ٹوٹکوں میں سب سے بہترین ٹوٹکا شوہر کہلا سکتا ہے کیوں کہ آپ اس سے فرنیچر، فرش، کپڑوں، قالین اور برتنوں کی صفائی کر سکتے ہیں بلکہ اس سے وہ تمام کام بھی لے سکتے ہیں جو ’’سرکے‘‘ سے لیے جاتے ہیں بلکہ کچھ زیادہ ہی کیونکہ ’’سرکہ‘‘ سے آپ ’’پیسے‘‘ بالکل نہیں بنا سکتے ہیں لیکن اس سے بنا سکتے ہیں بلکہ اگا سکتے ہیں جو ہر پہلی تاریخ کو توڑے جاتے ہیں، ویسے سرکہ کی بوتل کی طرح آپ اس کا منہ ڈھکن سے نہیں بند کر سکتے ہیں لیکن اگر بیوی ’’خوش کلام‘‘ ہو تو یہ خودبخود بھی اپنا منہ بند کر لیتے ہیں ۔۔۔ جو صرف کھانے اور اچھا کہنے کے لیے کھلتا ہے۔
اس میں شک نہیں کہ ان گھریلو ٹوٹکوں میں خواتین کے صفحے کا جزو اعظم ہوتے ہیں اب تک ’’سرکہ‘‘ ہی ایک بہت ہی کثیر المقاصد اور کثیر الفوائد چیز کے طور پر نمبر ون تھا بلکہ ایک زمانے سے جس کی جڑیں اگر قبل مسیح سے نہیں تو قبل سرکہ صدیوں سے جا ملتی ہیں صرف سرکہ ہی نمبر ون کی پوزیشن ہولڈر رہا ہے لیکن اس وقت کی بات ہے جب یہ ’’نئی چیز‘‘ جو ہو بہو انسانوں کی ہم شکل ہے دریافت نہیں ہوئی تھی یا یوں کہئے کہ ’’سدھائی‘‘ نہیں گئی تھی۔
اس نے آ کر سرکہ کی اجارہ داری ایسے ختم کی جیسے خرولا گاڑی نے ’’کرولا‘‘ گاڑیوں کی مارکیٹ چھین لی، عین مین دونوں چیزوں میں امتیازی خوبی بھی یہی ہے کہ کرولا گاڑیاں بیش قیمت ہونے کے ساتھ ساتھ ’’خرچیلی‘‘ بھی ہوتی تھیں، ڈیزل، پٹرول، گیس اور نہ جانے کیا کیا کھاتی بھی تھیں لیکن ’’خرولا‘‘ اس کے مقابل تقریباً مفت بھی ہے اور ’’نباتاتی فیول‘‘ یعنی گھاس پھونس سے چلتی ہیں بلکہ اس کی بھی ضرورت نہیں پڑتی بس کام کر کے انجن کھول دیجیے خودبخود یہاں وہاں سے خود کو بھروا لیتی ہیں۔
فوائد اور مقاصد کے لحاظ سے دیکھئے تو خرولا گاڑی کی طرح یہ نئی چیز جو گھریلو ٹوٹکوں میں مستعمل ہے تقریباً ایک جیسی بلکہ جڑواں سی ہوتی ہیں لیکن کچھ فوائد ایسے بھی ہیں جو ’’خرولا‘‘ گاڑی اور سرکہ میں بالکل نہیں ہوتیں، مثلاً یہ ٹوٹکہ یا گھریلو ٹوٹکہ جسے عرف عام میں شوہر کہا جا سکتا ہے بہت زیادہ کثیر الفوائد کثیر المقاصد کثیر الاستعمال اور سستا ترین ٹوٹکہ ہے ایک بار خریدیے پھر عمر بھر چلایئے بلکہ انشورنس کمپنیوں کی مدد سے عابد و زاہد اجداد کی طرح مرنے کے بعد کماؤ اور قابل استعمال رہتا ہے۔
ایک لحاظ سے اسے بھیڑ اور اونٹ کا مجموعہ بھی کہا جا سکتا ہے کیونکہ بھیڑ کی طرح ہر مہینے اس کا ’’اون‘‘ اتارا جا سکتا ہے اور روزانہ دودھ بھی دوہا جا سکتا ہے جب کہ اونٹ کی طرح ایک تو اس کی کوئی بھی کل سیدھی نہیں ہوتی کم از کم اپنی زوجگان کی نظر میں تو بالکل بھی نہیں، وہ قصہ تو آپ نے سنا ہی ہو گا کہ ایسا ہی ایک شوہر اپنی بیوی کو امپریس کرنے کے لیے جادو کے ذریعے اڑنے کا فن سیکھنے لگا ایک استاد سے آخر کار اس نے یہ فن سیکھ لیا اور ایک دن اڑ کر اپنے گھر کے اوپر منڈلانے لگا۔
اچھی طرح کرتب دکھانے کے بعد وہ کہیں باہر اترا اور عام شوہرانہ ’’کاسٹیوم‘‘ میں گھر پہنچا اور بیوی سے پوچھا کیوں کوئی نئی تازی؟ بیوی نے بڑے جوش کے ساتھ کہا کہ آج تو کمال ہو گیا میں نے ایک آدمی کو اڑتے ہوئے دیکھا، شوہر سے رہا نہ گیا بولا وہ میں تھا، بیوی کہاں مان کر دے رہی تھی لیکن اس نے جب وہ ساری حرکات و سکنات بتائیں جو اس کی بیوی اس وقت کر رہی تھی تو بولی ۔۔۔ اچھا اس لیے اتنے ٹیڑھے میڑے اڑ رہے تھے۔
خیر تو ’’بھیڑاونٹ‘‘ یا اونٹ بھیڑ یا خرولا یا سرکہ فی زمانا ایک بہت ہی کامیاب اور تیر بہدف ٹوٹکا ہے، ویسے تو اس ’’گھریلو ٹوٹکے‘‘ جس کا نام شوہر اور تخلص ’’نامدار‘‘ ہوتا ہے اور بھی ہزار استعمالات ہیں بلکہ ابھی گزشتہ دنوں سے ایک محترمہ کے دیے ہوئے گھریلو ٹوٹکوں میں بتایا گیا تھا کہ اسے جدید دور کا امرت دھارا بھی کہہ سکتے ہیں بلکہ اس نے آخر میں تمام خواتین کو مشورہ دیا تھا کہ گھر میں صرف ایک شوہر کو رکھئے اور باقی سب کچھ سے نچنت ہو جایئے اس نے شوہر کی تعریف میں ایک شعر بھی کہا تھا کہ
سب کچھ خدا سے مانگ لیا تجھ کو مانگ کر
اٹھتے نہیں ہاتھ میرے اس دعا کے بعد
کیونکہ اس کے بعد ہر کام کے لیے ’’شوہر کے ہاتھ‘‘ ہی کافی ہوتے ہیں، ہالی وڈ کی ایک مصنفہ الزبتھ ٹیلر نے اپنی خود نوشت میں لکھا ہے کہ شوہر نام کا یہ آئٹم سنجیدہ کاموں کے علاوہ لطیفے بنانے کے لیے بھی خوب ہے اس نے کچھ کم ایک درجن شوہروں کو استعمال کرنے کے بعد لکھا ہے کہ علاوہ دوسرے استعمالات کے آپ اسے بچوں کے ڈیڈی کے طور پر بھی استعمال کر سکتے ہیں پھر ثبوت کے طور پر اپنی کتاب لطائف شوہرانہ میں چند حقیقے بھی لکھے ہیں مثلاً ایک مرتبہ کسی تقریب میں میرے بچے ایک دوسری اداکارہ کے بچوں کے ساتھ بیٹھے تھے میرے بچوں نے اس اداکارہ کے بچوں کو میرے پانچویں شوہر کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا کہ وہ دیکھو جو ممی کے ساتھ ناچ رہا ہے وہ ہمارے نئے ڈیڈی ہیں۔
اس پر دوسری اداکارہ کے بچوں نے کہا کہ ہاں یہ بڑے اچھے آدمی ہیں کیوں کہ ہم بھی دو چار مہینے اسے اپنے ڈیڈی کے طور پر استعمال کر چکے ہیں، ویسے تو ہالی وڈ میں ایسے شوہروں اور بچوں کے ڈیڈی بہت پائے جاتے ہیں لیکن کوئی معیاری شوہر یا ڈیڈی بہت کم کم دستیاب ہیں میں نے تقریباً سات کو ٹرائی کیا ہے کوئی بھی کام کا نہیں نکلا اب ارادہ ہے کہ دو چار اور کو ٹرائی کرنے کے بعد اگر صحیح شوہر یا بچوں کا ڈیڈی نہیں ملا تو آیندہ کے لیے دل پر پتھر رکھ کر شادیوں اور شوہروں سے توبہ کر لوں گی۔
لیکن محترمہ کا یہ بیان صحیح نہیں ہے کیونکہ ہالی وڈ میں اصل اور خالص شوہر دستیاب ہی نہیں ہے سارا ڈپلی کیٹ مال ہی ملتا ہے صحیح اور کام کا شوہر پانے کے لیے صرف ایک چیز کو دیکھنا چاہیے کہ جتنا بے وقوف ہو گا وہی اچھا شوہر یا امرت دھارا ثابت ہو گا، چنانچہ شادی سے پہلے ٹھونک بجا کر اچھی طرح تلاشی لے لینی چاہیے کہ اس کے اوپر کے ’’خانے‘‘ میں کوئی خطرناک چیز تو نہیں ہے۔