PDA

View Full Version : تجارت میں کسب ِحلال کی حدیں کیا ہیں؟



intelligent086
02-13-2016, 03:00 AM
تجارت میں کسب ِحلال کی حدیں کیا ہیں؟
http://mag.dunya.com.pk/magazin_news/2013/September/09-15-13/798_63992254.jpg

آرٹیکل : علامہ محمد غزالی

دنیا میں تجارت دولت و ثروت کے حصول کا زبردست ذریعہ، عمرانی سرگرمیوں کا وسیع میدان اور دنیا کے مختلف حصوں میں سامان اور ضروری چیزیں پہنچانے کا راستہ ہے۔ اس سے بھی زیادہ یہ بات حیرت انگیز ہے کہ یہ آخرت میں بھی ثروت اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک بلند مرتبہ تک پہنچنے کا بڑا ذریعہ ہے۔
رسول اللہﷺ فرماتے ہیں: ’’سچا اور دیانت دار تاجر نبیوں، صدیقوں، شہیدوں اور صالحین کے ساتھ ہو گا‘‘ ایک دوسری حدیث بھی کافی غور و فکر کی دعوت دیتی ہے، جس میں تاجر کے دوسروں کے ساتھ معاملہ میں کشادگی اور رحم دلی کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے اور اس کے بڑے ثواب کا ذکر کیا گیا ہے۔ حضرت حذیفہ ؓ اور ابو مسعود ؓ بدری روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ پچھلے زمانے میں فرشتہ ایک شخص کی روح قبض کرنے آیا تو اس سے پوچھا کہ تم نے کبھی کوئی بھلائی کر رکھی ہے؟ اس نے کہا مجھے علم نہیں: کہا گیا کہ سوچ لو۔ اس نے جواب دیا کہ مجھے کچھ یاد نہیں آتا سوائے اس کے کہ میں لوگوں سے لین دین کیا کرتا تھا تو کشادہ دست کو مہلت دے دیا کرتا تھا اور تنگ دست سے درگزر کر لیا کرتا تھا، تب اللہ تعالیٰ نے اسے جنت میں داخل کر دیا۔ سب جانتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی قوم تجارت کرتی تھی اور یہی ان کی روزی کا ذریعہ تھی۔ وہ یمن و شام اور فارس و روم کے درمیان چکر لگایا کرتے تھے۔ بعض تجارتی اسفار میں خود رسول اللہ ﷺ نے حصہ لیا اور شروع زندگی میں آپ ؐ بھی اس کام سے گزارہ کرتے تھے اور آپ ؐ کے ساتھی بھی اور چونکہ عرب اس تجارتی ماحول میں رہ رہے تھے ۔اس لئے قرآن نے انہی کی زبان میں انہیں مخاطب کیا۔ ترجمہ:’’ کیا میں تم کو وہ تجارت نہ بتائوں جو تمہیں دردناک عذاب سے بچا دے ایمان لائو اللہ پر اور اس کے رسول ؐ پر اور جہاد کرو اللہ کی راہ میں اپنے مالوں سے اور اپنی جانوں سے‘‘۔(سورہ الصف) منافقوں، دنیا کے غلاموں اور خود غرضی کرنے والوں کے بارے میں فرماتا ہے: ترجمہ:’’ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہدایت کے بدلے گمراہی خرید لی ہے ، مگر یہ سودا ان کے لئے نفع بخش نہیں ہے اور یہ ہرگز صحیح راستے پر نہیں ہیں‘‘۔(سورہ البقرہ) تجارت ہر حال میں شریفانہ طریقوں سے ہونی چاہئے۔ دھوکہ بازی اور فریب کاری کے طریقوں سے نہیں۔ رسول اللہﷺ فرماتے ہیں: ’’قیامت کے دن تاجر لوگ بدکاروں کی حیثیت سے اٹھائے جائیں گے ،سوائے ان لوگوں کے جو اللہ تعالیٰ سے ڈر کر پرہیز گاری، نیکی اور سچائی سے کام لیتے تھے‘‘۔ ظاہر ہے کہ تاجر کوئی سامان کسی قیمت پر خریدتا ہے تو بیچتے وقت اس کی اصل قیمت میں نقل و حمل اور محفوظ رکھنے وغیرہ کی لاگت کے ساتھ کچھ نفع بھی لگاتا ہے جس سے وہ گزارہ بھی کرتا ہے اور اپنے کاروبار کے لئے ضمانت بھی فراہم کرتا ہے۔ تاجر کوئی سرکاری ملازم تو ہوتا نہیں کہ اسے مقررہ تنخواہ اور ریٹائرمنٹ کے بعد پنشن ملے۔ وہ تو خطرات سے کھیلتا ہے اورتجارت میں اپنے سارے وسائل دائوں پر لگائے رہتا ہے۔ لوگ یہ بات جانتے ہیں اور اعتدال کے دائرے میں اسے پسند کرتے ہیں۔ نفع کے سلسلے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ ترجمہ:’’اے ایمان والو ! آپس میں ایک دوسرے کے مال باطل طریقوں سے نہ کھائو لین دین ہونا چاہئے آپس کی رضا مندی سے‘‘۔(سورہ النسا) باہمی رضا مندی جائز تجارت کی بنیاد ہے۔ یعنی لینے والا اور دینے والا دونوں دل کی رضا مندی کے ساتھ لین دین کریں۔ ورنہ رسول اللہﷺ فرماتے ہیں کہ : ’’کسی مسلمان مرد کے لئے جائز نہیں کہ وہ اپنے بھائی کا ڈنڈا بھی بغیر اس کی رضا مندی کے لے لے‘‘۔ لیکن یہ رضا مندی باطل کے ساتھ جائز نہیں ہو سکتی۔ اب سوال یہ رہ جاتا ہے کہ کیا تاجروں کے منافع کی کوئی حد ہے، جس کے بعد نفع حرام ہو جائے؟اس سلسلے میں کوئی واضح نص تو نہیں ہے لیکن فطری طور پر حد اعتدال سے آگے بڑھنا مناسب نہیں ہو سکتا۔ بعض تاجر حالات پر کنٹرول کرنے اور مانگ اور فراہمی کے اصول کے ساتھ کھلواڑ کرنے کی کوشش کرتے ہیں چنانچہ وہ جان بوجھ کر ذخیرہ اندوزی کرتے ہیں تاکہ کئی گنا نرخ پر فروخت کریں۔ ذخیرہ اندوزی اخلاقی و سماجی جرم ہے یہ لوگوں کا مال باطل طریقہ سے کھانے اور ضرورت مندوں کی ضرورت کا ناجائز استحصال کر کے ذاتی لالچ کا پیٹ بھرنے کا مختصر ترین راستہ ہے۔ جدید تہذیب نے اس سلسلے میں عجیب و غریب طریقے اختیار کر رکھے ہیں اس تہذیب کے علمبردار مقررہ قیمت کم نہ ہونے دینے کے لئے بعض زرعی پیداوار تک جلا دیتے ہیں۔ پاگل پن کی قسمیں شمار نہیں کی جا سکتیں۔ جب مجھے ذخیرہ اندوزی کرنے والی کمپنیوں کے بہت زیادہ منافع لینے کی حقیقت معلوم ہوئی تب مجھے رسول اللہ ﷺ کا یہ قول سمجھ میں آیا کہ ’’صرف خطا کار ہی ذخیرہ اندوزی کرتا ہے‘‘ایک دوسری روایت میں آتا ہے کہ ذخیرہ اندوزی کرنے والے اور قاتل لوگ ایک ہی درجہ میں اٹھائے جائیں گے۔ جو مسلمانوں کے بازار کے نرخ میں اضافہ کرنے کا ذریعہ بنے گا اللہ تعالیٰ کو حق ہو گا کہ اسے قیامت کے دن شدید آگ کے عذاب میں ڈال دے‘‘۔ حضرت معاذ بن جبل ؓکی ایک روایت میں آتا ہے بدترین ذخیرہ اندوزی کرنے والا وہ ہوتا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ بھائو سستا کر دے تو غمزدہ ہو جائے اور اگر بھائو چڑھا دے تو خوش ہو جائے۔ بیشتر تاجروں کی حد سے زیادہ طمع پسندی کو دیکھ کر ہی کمیونسٹوں نے تجارت کو منسوخ کیا اور چیزوں کے حمل و نقل اور تقسیم کا عوامی نظام بنایا تھا لیکن یہ حل بھی فطری آزادیوں کے ساتھ میل نہیں کھا سکا اور عوام کو اس سے راحت نہیں مل سکی۔ ہمارے خیال میں مانگ اور فراہمی کا سلسلہ اور افراد اور کمپنیوں کے درمیان مقابلہ آرائی کا طریقہ باقی رہنا چاہئے۔ جب اس کا غلط استحصال ہونے لگے تو ریاست کو جبری نرخ نافذ کرنے چاہئیں۔ یہاں ایک اور محرک کی طرف بھی توجہ دلانا ضروری ہے جس کا اپنا بڑا وزن ہے یعنی دین و اخلاق کے محرکات ۔صحیح تربیت اور آزادیوں کی ضمانت کی فضا میں جو دلوں میں پاکیزگی پیدا ہوتی ہے وہ بہت سی بلائوں کو روکتی ہے اور تجارت کو بھی اس دائرہ میں لے آتی ہے جس کا ذکر حدیث میں کیا گیا ہے۔ ’’اللہ اس شخص پر رحم کرے جو بیچتے ،خریدتے اور تقاضا کرتے وقت کشادہ دلی سے کام لے‘‘۔ حضرت عمر ؓ کے حوبصورت اقوال میں سے یہ بھی ہے کہ: ’’جو دین کی سمجھ نہ رکھتا ہو وہ ہمارے بازار میں سامان فروخت نہ کرے‘‘۔ ٭٭٭٭