- نقش فریادی ہےکس کی شوخئ تحریر کا
- جراحت تحفہ، الماس ارمغاں، داغِ جگر ہدیہ
- جز قیس اور کوئی نہ آیا بروئے کار
- کہتے ہو نہ دیں گے ہم دل اگر پڑا پایا
- ہے کہاں تمنّا کا دوسرا قدم یا رب
- دل میرا سوز ِنہاں سے بے محابا جل گیا
- شوق، ہر رنگ رقیبِ سروساماں نکلا
- دھمکی میں مر گیا، جو نہ بابِ نبرد تھا
- شمار سبحہ،” مرغوبِ بتِ مشکل” پسند آیا
- دہر میں نقشِ وفا وجہ ِتسلی نہ ہوا
- ستایش گر ہے زاہد ، اس قدر جس باغِ رضواں کا
- نہ ہوگا “یک بیاباں ماندگی” سے ذوق کم میرا
- سراپا رہنِ عشق و ناگزیرِ الفتِ ہستی
- محرم نہیں ہے تو ہی نوا ہائے راز کا
- بزمِ شاہنشاہ میں اشعار کا دفتر کھلا
- شب کہ برقِ سوزِ دل سے زہرۂ ابر آب تھا
- نالۂ دل میں شب اندازِ اثر نایاب تھا
- نالۂ دل میں شب اندازِ اثر نایاب تھا
- ایک ایک قطرے کا مجھے دینا پڑا حساب
- بسکہ دشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا
- شب خمارِ شوقِ ساقی رستخیز اندازہ تھا
- دوست غمخواری میں میری سعی فرمائیں گے کیا
- یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصالِ یار ہوتاا
- ہوس کو ہے نشاطِ کار کیا کیا
- درخورِ قہر و غضب جب کوئی ہم سا نہ ہوا
- اسدؔ ہم وہ جنوں جولاں گدائے بے سر و پا ہیں
- پۓ نذرِ کرم تحفہ ہے ‘شرمِ نا رسائی’ کا
- گر نہ ‘اندوہِ شبِ فرقت ‘بیاں ہو جائے گا
- درد مِنّت کشِ دوا نہ ہوا
- گلہ ہے شوق کو دل میں بھی تنگئ جا کا
- قطرۂ مے بس کہ حیرت سے نفَس پرور ہوا
- جب بہ تقریبِ سفر یار نے محمل باندھا
- میں اور بزمِ مے سے یوں تشنہ کام آؤں
- گھر ہمارا جو نہ روتے بھی تو ویراں ہوتا
- نہ تھا کچھ تو خدا تھا، کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوت&
- یک ذرۂ زمیں نہیں بے کار باغ کا
- وہ میری چینِ جبیں سے غمِ پنہاں سمجھا
- پھر مجھے دیدۂ تر یاد آیا
- ہوئی تاخیر تو کچھ باعثِ تاخیر بھی تھا
- لب خشک در تشنگی، مردگاں کا
- تو دوست کسی کا بھی، ستمگر! نہ ہوا تھا
- شب کہ وہ مجلس فروزِ خلوتِ ناموس تھا
- آئینہ دیکھ، اپنا سا منہ لے کے رہ گئے
- ضعفِ جنوں کو وقتِ تپش در بھی دور تھا
- فنا کو عشق ہے بے مقصداں حیرت پرستاراں
- عرضِ نیازِ عشق کے قابل نہیں رہا
- رشک کہتا ہے کہ اس کا غیر سے اخلاص حیف!
- ذکر اس پری وش کا، اور پھر بیاں اپنا
- سرمۂ مفتِ نظر ہوں مری قیمت* یہ ہے
- غافل بہ وہمِ ناز خود آرا ہے ورنہ یاں
- جور سے باز آئے پر باز آئیں کیا
- لطافت بےکثافت جلوہ پیدا کر نہیں سکتی
- عشرتِ قطرہ ہے دریا میں فنا ہو جانا
- شکوۂ یاراں غبارِ دل میں پنہاں کر دیا
- پھر وہ سوۓ چمن آتا ہے خدا خیر کرے
- اسدؔ! یہ عجز و بے سامانئِ فرعون توَام ہے
- بس کہ فعّالِ ما یرید ہے آج
- بہ رہنِ شرم ہے با وصفِ شوخی اہتمام اس کا
- عیب کا دریافت کرنا، ہے ہنرمندی اسدؔ
- شب کہ ذوقِ گفتگو سے تیرے، دل بے تاب تھا
- دود کو آج اس کے ماتم میں سیہ پوشی ہوئی
- پھر ہوا وقت کہ ہو بال کُشا موجِ شراب
- افسوس کہ دنداں* کا کیا رزق فلک نے
- رہا گر کوئی تا قیامت سلامت
- آمدِ خط سے ہوا ہے سرد جو بازارِ دوست
- مند گئیں کھولتے ہی کھولتے آنکھیں غالبؔ
- گلشن میں بند وبست بہ رنگِ دگر ہے آج
- معزولئ تپش ہوئی افرازِ انتظار
- لو ہم مریضِ عشق کے بیماردار ہیں
- نفَس نہ انجمنِ آرزو سے باہر کھینچ
- حسن غمزے کی کشاکش سے چھٹا میرے بعد
- ہلاکِ بے خبری نغمۂ وجود و عدم
- تجھ سے مقابلے کی کسے تاب ہے ولے
- بلا سے ہیں جو یہ پیشِ نظر در و دیوار
- گھر جب بنا لیا ترے در پر کہے بغیر
- کیوں جل گیا نہ، تابِ رخِ یار دیکھ کر
- لرزتا ہے مرا دل زحمتِ مہرِ درخشاں پر
- ہے بس کہ ہر اک ان کے اشارے میں نشاں اور
- صفاۓ حیرت آئینہ ہے سامانِ زنگ آخر
- جنوں کی دست گیری کس سے ہو گر ہو نہ عریانی
- ستم کش مصلحت سے ہوں کہ خوباں تجھ پہ عاشق ہیں
- فارغ مجھے نہ جان کہ مانندِ صبح و مہر
- لازم تھا کہ دیکھو مرا رستہ کوئی دِن اور
- حریفِ مطلبِ مشکل نہیں فسونِ نیاز
- کیوں کر اس بت سے رکھوں جان عزیز
- وسعتِ سعیِ کرم دیکھ کہ سر تا سرِ خاک
- گل کھلے غنچے چٹکنے لگے اور صبح ہوئی
- نہ گل نغمہ ہوں نہ پردۂ ساز
- مُژدہ ، اے ذَوقِ اسیری ! کہ نظر آتا ہے
- نہ لیوے گر خسِ جَوہر طراوت سبزۂ خط سے
- اے اسدؔ ہم خود اسیرِ رنگ و بوۓ باغ ہیں
- جادۂ رہ خُور کو وقتِ شام ہے تارِ شعاع
- رُخِ نگار سے ہے سوزِ جاودانیِ شمع
- بیمِ رقیب سے نہیں کرتے وداعِ ہوش
- زخم پر چھڑکیں کہاں طفلانِ بے پروا نمک
- آہ کو چاہیے اِک عُمر اثر ہونے* تک
- دیکھنے میں ہیں گرچہ دو، پر ہیں یہ دونوں یار
- گر تُجھ کو ہے یقینِ اجابت ، دُعا نہ مانگ
- ہے کس قدر ہلاکِ فریبِ وفائے گُل
- غم نہیں ہوتا ہے آزادوں کو بیش از یک نفس
- بـہ نالہ دل بستگـی فراہــم کـر
- مجھ کو دیارِ غیر میں مارا، وطن سے دور
- رسیدن گلِ باغ واماندگی ہے
- لوں وام بختِ خفتہ سے یک خوابِ خوش ولے
- وہ فراق اور وہ وصال کہاں
- کی وفا ہم سے تو غیر اس کو جفا کہتے ہیں
- آبرو کیا خاک اُس گُل کی۔ کہ گلشن میں نہیں
- عہدے سے مدِحناز کے باہر نہ آ سکا
- میں گیا وقت نہیں ہوںکہ پھر آ بھی نہ سکوں
- ہم سے کھل جاؤ بوقتِ مے پرستی ایک دن
- ہم پر جفا سے ترکِ وفا کا گماں نہیں
- مانع دشت نوردی کوئی تدبیر نہیں
- مت مردُمکِ دیدہ میں سمجھو یہ نگاہیں
- برشکالِ* گریۂ عاشق ہے* دیکھا چاہۓ
- عشق تاثیر سے نومید نہیں
- جہاں تیرا نقشِ قدم دیکھتے ہیں
- ملتی ہے خُوئے یار سے نار التہاب میں
- کل کے لئے کر آج نہ خسّت شراب میں
- حیراں ہوں، دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو مَیں
- ذکر میرا بہ بدی بھی، اُسے منظور نہیں
- نالہ جُز حسنِ طلب، اے ستم ایجاد نہیں
- دونوں جہان دے کے وہ سمجھے یہ خوش رہا
- ہو گئی ہے غیر کی شیریں بیانی کارگر
- قیامت ہے کہ سن لیلیٰ کا دشتِ قیس میں آنا
- دل لگا کر لگ گیا اُن کو بھی تنہا بیٹھنا
- یہ ہم جو ہجر میں دیوار و در کو دیکھتے ہیں
- نہیں کہ مجھ کو قیامت کا اعتقاد نہیں
- تیرے توسن کو صبا باندھتے ہیں
- زمانہ سخت کم آزار ہے، بہ جانِ اسدؔ
- سب کہاں؟ کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہو گئیں
- ۔دائم پڑا ہُوا ترے در پر نہیں ہُوں میں
- دیوانگی سے دوش پہ زنّار بھی نہیں
- نہیں ہے رخم کوئی بخیے کے درخُور مرے تن میں
- مزے جہان کے اپنی نظر میں خاک نہیں
- دل ہی تو ہے نہ سنگ و خشت، درد سے بھر نہ آئے کیو
- غنچۂ ناشگفتہ کو دور سے مت دکھا، کہ یُوں
- مسجد کے زیرِ سایہ خرابات چاہیے
- صد جلوہ رو بہ رو ہے جو مژگاں اٹھائیے
- ہندوستان سایۂ گل پاۓ تخت تھا
- نہ پوچھ حال اس انداز، اس عتاب کے ساتھ
- ہے سبزہ زار ہر در و دیوارِ غم کدہ
- از مہر تا بہ ذرّہ دل و دل ہے آئینہ
- شبِ وصال میں مونس گیا ہے بَن تکیہ
- بھولے سے کاش وہ ادھر آئیں تو شام ہو
- رہیے اب ایسی جگہ چل کر جہاں کوئی نہ ہو
- کسی کو دے کے دل کوئی نوا سنجِ فغاں کیوں ہو
- گئی وہ بات کہ ہو گفتگو تو کیوں کر ہو
- تم جانو، تم کو غیر سے جو رسم و راہ ہو
- واں پہنچ کر جو غش آتا پئے ہم ہے ہم کو
- واں اس کو ہولِ دل ہے تو یاں میں ہوں شرمسار
- قفس میں ہوں گر اچّھا بھی نہ جانیں میرے شیون
- ملی نہ وسعتِ جولان یک جنون ہم کو
- ابر روتا ہے کہ بزمِ طرب آمادہ کرو
- وارستہ اس سے ہیں کہ محبّت ہی کیوں نہ ہو
- کعبے میں جا رہا، تو نہ دو طعنہ، کیا کہیں
- حسد سے دل اگر افسردہ ہے، گرمِ تماشا ہو
- دھوتا ہوں جب میں پینے کو اس سیم تن کے پاؤں
- مے کشی کو نہ سمجھ بےحاصل
- میر کے شعر کا احوال کہوں کیا غالبؔ
- جس دن سے کہ ہم خستہ گرفتارِ بلا ہیں
- ممکن نہیں کہ بھول کے بھی آرمیدہ ہوں
- اپنا احوالِ دلِ زار کہوں یا نہ کہوں
- ہم بے خودئ عشق میں کر لیتے ہیں سجدے
- ہے آرمیدگی میں نکوہش بجا مجھے
- عشق مجھ کو نہیں وحشت ہی سہی
- چشمِ خوباں خامشی میں بھی نوا پرداز ہے
- رحم کر ظالم کہ کیا بودِ چراغِ کشتہ ہے
- مری ہستی فضاۓ حیرت آبادِ تمنّا ہے
- پینس میں گزرتے ہیں جو کوچے سے وہ میرے
- ایک جا حرفِ وفا لکّھا تھا، سو* بھی مٹ گیا
- تم اپنے شکوے کی باتیں نہ کھود کھود کے* پوچھو
- گر خامشی سے فائدہ اخفاۓ حال ہے
- سر گشتگی میں عالمِ ہستی سے یاس ہے
- درد سے میرے ہے تجھ کو بے قراری ہائے ہائے
- کیا تنگ ہم ستم زدگاں کا جہان ہے
- حاصل سے ہاتھ دھو بیٹھ اے آرزو خرامی
- غمِ دنیا سے گر پائی بھی فرصت سر اٹھانے کی
- گھر میں تھا کیا کہ ترا غم اسے غارت کرتا
- تا ہم کو شکایت کی بھی باقی نہ رہے جا
- ہے بزمِ بتاں میں سخن آزردہ لبوں سے
- بساطِ عجز میں تھا ایک دل یک قطرہ خوں وہ بھی
- دل سے تری نگاہ جگر تک اتر گئی
- ۔ اگ رہا ہے در و دیوار سے سبزہ غالبؔ ہم بیابا
- سادگی پر اس کی، مر جانے کی حسرت دل میں ہے
- کار گاہ ہستی میں لالہ داغ ساماں ہے
- گرمِ فریاد رکھا شکلِ نہالی نے مجھے
- دیکھنا قسمت کہ آپ اپنے پہ رشک آ جائے ہے
- رفتارِ عمر قطعِ رہ اضطراب ہے
- زندگی اپنی جب اس شکل سے گزری غالبؔ
- اس بزم میں مجھے نہیں بنتی حیا کیے
- میں انہیں چھیڑوں اور کچھ نہ کہیں
- آ، کہ مری جان کو قرار نہیں ہے
- جو نہ نقدِ داغِ دل کی کرے شعلہ پاسبانی
- ظلمت کدے میں میرے شبِ غم کا جوش ہے
- بے اعتدالیوں سے سبُک سب میں ہم ہوئے
- نِکوہِش ہے سزا فریادئِ بیدادِ دِلبر کی
- جنوں تہمت کشِ تسکیں نہ ہو گر شادمانی کی
- پھر کچھ اک دل کو بیقراری ہے
- کہتے تو ہو تم سب کہ بتِ غالیہ مو آئے
- دلِ ناداں تجھے ہوا کیا ہے؟
- کوئی امّید بر نہیں آتی
- تسکیں کو ہم نہ روئیں جو ذوقِ نظر ملے
- گلشن کو تری صحبت از بسکہ خوش آئی ہے
- نقشِ نازِ بتِ طنّاز بہ آغوشِ رقیب
- کب وہ سنتا ہے کہانی میری
- تغافل دوست ہوں میرا دماغِ عجز عالی ہے
- پھر اس انداز سے بہار آئی
- غیر لیں محفل میں بوسے جام کے
- ہر ایک بات پہ کہتے ہو تم کہ تو کیا ہے
- شکوے کے نام سے بے مہر خفا ہوتا ہے
- عجب نشاط سے جلاّد کے چلے ہیں ہم آگے
- نہ ہوئی گر مرے مرنے سے تسلّی نہ سہی
- حسنِ مہ گرچہ بہ ہنگامِ کمال اچّھا ہے
- جس بزم میں تو ناز سے گفتار میں آوے
- ہجومِ غم سے یاں تک سر نگونی مجھ کو حاصل ہے
- پا بہ دامن ہو رہا ہوں بسکہ میں صحرا نورد
- جس زخم کی ہو سکتی ہو تدبیر رفو کی
- سیماب پشت گرمیِ آئینہ دے ہے ہم
- ہے وصل ہجر عالمِ تمکین و ضبط میں
- یاد ہے شادی میں بھی ، ہنگامۂ “یارب” ، مجھے
- دیکھ کر در پردہ گرمِ دامن افشانی مجھے
- دیا ہے دل اگر اُس کو ، بشر ہے ، کیا کہیے
- کیوں نہ ہو چشمِ بُتاں محوِ تغافل ، کیوں نہ ہ
- کرے ہے بادہ ، ترے لب سے ، کسبِ رنگِ فروغ
- ہم رشک کو اپنے بھی گوارا نہیں کرتے
- نہ پُوچھ نسخۂ مرہم جراحتِ دل کا
- فریاد کی کوئی لَے نہیں ہے
- خطر ہے رشتۂ اُلفت رگِ گردن نہ ہو جائے
- تپِش سے میری ، وقفِ کش مکش ، ہر تارِ بستر ہے
- وہ آ کے ، خواب میں ، تسکینِ اضطراب تو دے
- چاک کی خواہش ، اگر وحشت بہ عُریانی کرے
- نکتہ چیں ہے ، غمِ دل اُس کو سُنائے نہ بنے
- چاہیے اچھّوں کو ، جتنا چاہیے
- ہر قدم دورئِ منزل ہے نمایاں مجھ سے
- حضورِ شاہ میں اہلِ سخن کی آزمائش ہے
- کوہ کے ہوں بارِ خاطر گر صدا ہو جائیے
- ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
- روندی ہوئی ہے کوکبہ شہریار کی
- باغ پا کر خفقانی یہ ڈراتا ہے مجھے
- بہت سہی غمِ گیتی، شراب کم کیا ہے؟
- ابنِ مریم ہوا کرے کوئی
- جب تک دہانِ زخم نہ پیدا کرے کوئی
- حسنِ بے پروا خریدارِ متاعِ جلوہ ہے
- عرضِ نازِ شوخئِ دنداں براۓ خندہ ہے
- نشّہ ہا شادابِ رنگ و ساز ہا مستِ طرب
- رونے سے اور عشق میں بےباک ہو گۓ
- ۔ کہوں جو حال تو کہتے ہو “مدعا کہیے
- بازیچۂ اطفال ہے دنیا مرے آگے
- لاغر اتنا ہوں کہ گر تو بزم میں جا دے مجھے
- کبھی نیکی بھی اُس کے جی میں ، گر آجائے ہے ، مُ