- بہ احتیاطِ عقیدت بہ چشمِ تر کہنا
- زمانے والوں سے چھُپ کے رونے کے دن نہیں ہیں
- اِک پشیمان سی حسرت مُجھے سوچتا ہے
- دُشمنِ جاں کئی قبیلے ہُوئے
- کُچھ بھی کر گزرنے میں دیر کِتنی لگتی ہے
- ہجر کی شب میں قید کرے یا صُبح وصَال میں رکھے
- کون روک سکتا ہے
- بند ہوتی کتابوں میں اُڑتی ہوئی تتلیاں ڈال
- یہ میری عمر مرے ماہ و سال دے اُس کو
- پُوچھ لو پھُول سے کیا کرتی ہے
- کون بھنور میں ملّاحوں سے اب تکرار کرے گا
- منفرد سا کوئی پیدا وہ فن چاہتی ہے
- اب یہ بات مانی ہے
- حیرت
- ایک شعر مَیں بد دُعا تو نہیں دے رہی ہُوں اُس
- ورثہ
- بس اپنے ساتھ رہنا چاہتی ہوں
- نا دیدہ رفاقت میں
- اتنے سچّے کیوں ہوتے ہیں
- یہی نہیں کوئی طوفاں مِری تلاش میں ہے
- تجھ سے اب اور محّبت نہیں کی جا سکتی
- دل تھا کہ خُوش خیال تجھے دیکھ کر ہُوا
- ہر جانب ویرانی بھی ہو سکتی ہے
- چُپ نہ رہتے بیان ہو جاتے
- انحراف
- شامِ تنہائی میں
- جس طرح ماں کی دُعا ہوتی ہے
- مُجھے موت دے کہ حیات دے
- آئندہ کبھی اس سے محّبت نہیں کی جائے
- خامشی سے ہاری میں
- یہ نام ممکن نہیں رہے گا،مقام ممکن نہیں رہے
- اندیشوں کے شہر میں رہنا پڑ جائے گا
- تُمھاری یاد کی دُنیا میں دن سے رات کروں
- عشق کرو تو یہ بھی سوچو عرض سوال سے پہلے
- یہ دل بھُلاتا نہیں ہے محبتیں اُس کی
- موت سے مُکر جائیں
- اب اپنے فیصلے پر خُود اُلجھنے کیوں لگی ہوں
- میں کن لوگوں میں ہوں کیا لکھ رہی ہُوں
- اَب کس سے کہیں اور کون سُنے جو حال تمُھارے ب
- گُریز شب سے سحر سے کلام رکھتے تھے
- بہت تاریک صحرا ہو گیا ہے
- تُمھیں خبر ہی نہیں کیسے سر بچایا ہے
- قبولیت کا گِلہ نہیں ہے
- لہُو تک آنکھ سے اَب بہہ لیا ہے
- حصارِ لفظ و بیاں میں گُم ہوں
- دل کی منزل اُس طرف ہے گھر کا رستہ اِس طرف
- محّبت یاد رکھتی ہے
- خواب
- ضمیرِ عالمِ انسانیت
- مُجھ کو رُسوا سرِ محفل تو نہ کروایا کرے
- یہ عُمر بھر کا سفر اور یہ رائیگانی تری
- ہمارے بس میں اگر اپنے فیصلے ہوتے
- جانے کیسے سنبھال کر رکھّے
- تہمتیں تو لگتی ہیں
- کُل اثاثہ تھا اِک دِیا لوگو
- کیا بتائیں کیوں دئیے د مساز نے
- ہجر سہنے کی غم شناسی کی
- محّبت کم نہیں ہو گی
- پلٹ کر پھر کبھی اُس نے پُکارا ہی نہیں ہے
- لُطف سو گواری میں
- وہ حرف حرف مِری رُوح مَیں اُترتا گیا
- عُمر رائیگاں کر دی تب یہ بات مانی ہے
- بشارت
- تُم سے کُچھ نہیں کہنا
- آخری خواہش
- میں تو ایک قدم چل کر ہی رُوح تلک تھک جاتی ہوں
- میری آنکھوں کو سُوجھتا ہی نہیں
- بے نام اُلجھن
- اشک اپنی آنکھوں سے خُود بھی ہم چھُپائیں گے
- لفظ بھی کوئی اس کا ساتھ نہ دیتا تھا
- یہ گئے دنوں کا ملال ہے
- بدن کی سرزمین پر تو حکمران اور ہے
- کوئی نظم ایسی لکھوں کبھی
- حقیقتوں کا تصّور محال لگتا ہے
- ہر اِک لمحہ نیا اِک امتحاں ہے
- راستوں میں رہے نہ گھر میں رہے
- وہ تیرگی تھی لفظوں کو راستہ نہ ملا
- دل پر ہوتے جبر ابھی دیکھے ہی نہیں ہیں
- سوچ رہے ہیں صبح تلک اِک بار بھی آنکھ نہیں جھ
- قریب تھا تو کسے فُرصت محبّت تھی
- آج دیکھو زمیں کے سینے پر
- خیال و خواب کے منظر سجانا چاہتا ہے
- روشنیوں کے سارے منظر جھُوٹے لگتے ہیں
- محّبت میں کہیں کم ہو گیا ہے
- اِک چادر سخن ہی بچا کر نکل چلیں
- مرقدِ عشق پہ اَب اور نہ رویا جائے
- ہجر کی شب میں قید کرے یا صُبحِ وصال میں رکھے
- خرچ اِتنا بھی نہ کر مُجھ کو زمانے کیلئے
- LOng Distance Call
- ابھی امید کا دامن ہمارے ہاتھ سے چھوٹا نہیں
- الجھن
- Alam e MohabbaT Mein
- چاھے دل کے ہاتھوں میں