- تھا مستعار حسن سے اُس کے جو نور تھا
- کیا میں بھی پریشانیِ خاطر سے قریں تھا
- نکلے ہے چشمہ جو کوئی جوش زناں پانی کا
- جامۂ مستیِ عشق اپنا مگر کم گھیر تھا
- اس عہد میں الہی محبت کو کیا ہوا
- الٹی ہو گئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کی
- چمن میں گل نے جو کل دعویِ جمال کیا
- شبِ ہجر میں کم تظلم کیا
- دیکھے گا جو تجھ رُو کو سو حیران رہے گا
- تا گور کے اوپر وہ گل اندام نہ آیا
- جس سر کو غرور آج ہے یاں تاج وری کا
- وہ اک روش سے کھولے ہوئے بال ہو گیا
- بے تاب جی کو دیکھا دل کو کباب دیکھا
- دل بہم پہنچا بدن میں تب سے سارا تن جلا
- حالِ دل میرؔ کا رو رو کے سب اے ماہ سنا
- جب جنوں سے ہمیں توسل تھا
- آگے جمالِ یار کے معذور ہو گیا
- فرہاد ہاتھ تیشے پہ ٹک رہ کے ڈالتا
- گل شرم سے بہ جائے گا گلشن میں ہو کر آب سا
- مر رہتے جو گُل بِن تو سارا یہ خلل جاتا
- اُس فریبندہ کو نہ سمجھے آہ
- مانندِ شمعِ مجلس شب اشک بار پایا
- اُس گل زمیں سے اب تک اُگتے ہیں سرو جس جا
- ہمارے آگے ترا جب کسو نے نام لیا
- شکوہ کروں میں کب تک اُس اپنے مہرباں کا
- سیر کے قابل ہے دل صد پارہ اُس نخچیر کا
- شب درد و غم سے عرصہ مرے جی پہ تنگ تھا
- دل میں بھرا ز بسکہ خیالِ شراب تھا
- کیا طرح ہے آشنا گاہے گہے نا آشنا
- گل کو محبوب ہم قیاس کیا
- مفت آبروئے زاہدِ علامہ لے گیا
- اے تو کہ یاں سے عاقبتِ کار جائے گا
- کیا کہوں کیسا ستم غفلت میں مجھ سے ہو گیا
- مت ہو دشمن اے فلک مجھ پائمالِ راہ کا
- ایسی گلی اک شہرِ اسلام نہیں رکھتا
- خوبی کا اس کی بسکہ طلب گار ہو گیا
- تیر جو اس کمان سے نکلا
- ہم خستہ دل ہیں تجھ سے بھی نازک مزاج تر
- سنا ہے حال ترے کشتگاں بچاروں کا
- یوں نکلے ہے فلک ایدھر سے ناز کناں جو جانے تو
- گزرا بنائے چرخ سے نالہ پگاہ کا
- دل سے شوقِ رخِ نکو نہ گیا
- کئی دن سلوک وداع کا مرے در پئے دلِ زار تھا
- مہر کی تجھ سے توقع تھی ستم گر نکلا
- رہے خیال تنک ہم بھی رُو سیاہوں کا
- اُس کا خرام دیکھ کے جایا نہ جائے گا
- ایسا ترا رہ گزر نہ ہو گا
- غم اس کو ساری رات سنایا تو کیا ہوا
- یادِ ایام کہ یاں ترکِ شکیبائی تھا
- اے دوست کوئی مجھ سا رسوا نہ ہوا ہو گا
- عالم میں کوئی دل کا خریدار نہ پایا
- کیا مرے آنے پہ تو اے بتِ مغرور گیا
- خواہ مجھ سے لڑ گیا اب خواہ مجھ سے مل گیا
- پھوٹا کیے پیالے لنڈھتا پھرا قرابا
- سمجھے تھے میرؔ ہم کہ یہ ناسور کم ہوا
- تابہ مقدور انتظار کیا
- دکھ اب فراق کا ہم سے سہا نہیں جاتا
- دل و دماغ ہے اب کس کو زندگانی کا
- موا میں سجدے میں پر نقش میرا بار رہا
- جیتے جی کوچۂ دل دار سے جایا نہ گیا
- دل کے تئیں آتشِ ہجراں سے بچایا نہ گیا
- گُل میں اُس کی سی جو بو آئی تو آیا نہ گیا
- ادھر آ کر شکار افگن ہمارا
- گلیوں میں اب تلک تو مذکور ہے ہمارا
- سحَر کہ عید میں دورِ سبو تھا
- راہِ دور عشق ہے روتا ہے کیا
- مہر کی تجھ سے توقع تھی ستم گر نکلا
- راہِ دور عشق ہے روتا ہے کیا
- غمزے نے اُس کے چوری میں دل کی ہنر کیا
- بے کسانہ جی گرفتاری سے شیون میں رہا
- کچھ نہ دیکھا پھر بجز اک شعلۂ پُر پیج و تاب
- ہاتھ سے تیرے اگر میں ناتواں مارا گیا
- محبت کا جب زورِ بازار ہو گا
- کب تک تو امتحاں میں مجھ سے جدا رہے گا
- اشک آنکھوں میں کب نہیں آتا
- نہ پوچھ خوابِ زلیخا نے کیا خیال لیا
- نقاش دیکھ تو میں کیا نقشِ یار کھینچا
- یہ حسرت ہے مروں اُس میں لیے لبریز پیمانا
- بارہا گور دل جھکا لایا
- کیا عجب پل میں اگر ترک ہو اُس سے جاں کا
- اب دیکھیے تو واں نہیں سایہ درخت کا
- ہم عشق میں نہ جانا غم ہی سدا رہے گا
- بھلا ہو گا کچھ اک احوال اس سے یا برا ہو گا
- پھر شب نہ لطف تھا نہ وہ مجلس میں نور تھا
- ہے حال جائے گریہ جانِ پُر آرزو کا
- میں بھی دنیا میں ہوں اک نالہ پریشاں یک جا
- فلک کا منہ نہیں اس فتنے کے اٹھانے کا
- کل شبِ ہجراں تھی لب پر نالہ بیمارانہ تھا
- پیغامِ غم جگر کا گلزار تک نہ پہنچا
- آیا جو سیلِ عشق سب اسباب لے گیا
- کب تلک یہ ستم اُٹھائیے گا
- دل پہنچا ہلاکی کو نپٹ کھینچ کسالا
- دیر و حرم سے گزرے اب دل ہے گھر ہمارا
- غم رہا جب تک کہ دم میں دم رہا
- چوری میں دل کی وہ ہنر کر گیا
- یہ جاگنا ہمارا دیکھا تو خواب نکلا
- دامانِ کوہ میں جو میں دھاڑ مار رویا
- وہ آئنہ رخسار دمِ باز پس آیا
- دل جو زیرِ غبار اکثر تھا
- ہوتا ہے یاں جہاں میں ہر روز و شب تماشا
- تیرا رخِ مخطّط قرآن ہے ہمارا
- کب مصیبت زدہ دل مائلِ آزار نہ تھا
- جی اپنا میں نے تیرے لیے خوار ہو دیا
- یہ عشقِ بے محابا کس کو امان دے گا
- کل چمن میں گُل و سمن دیکھا
- جدا جو پہلو سے وہ دلبرِ یگانہ ہوا
- کیا دن تھے وے کہ یاں بھی دلِ آرمیدہ تھا
- کثرتِ داغ سے دل رشکِ گلستاں نہ ہوا
- سنگ مجھ بہ جاں قبول اس کے عوض ہزار بار
- بھیجا تھا اس کے پاس سو میرے وطن گیا
- سرِ دورِ فلک بھی دیکھوں اپنے روبرو ٹوٹا
- آنکھوں میں جی مرا ہے اِدھر پار دیکھنا
- غلط ہے عشق میں اے ابوالہوس اندیشہ راحت کا
- جو اس شور سے میرؔ روتا رہے گا
- نئی طرزوں سے مے خانے میں رنگِ مے جھلکتا تھا
- تجھ سے ہر آن مرے پاس کا آنا ہی گیا
- دل عشق کا ہمیشہ حریفِ نبرد تھا
- برقع اُٹھا تھا رُخ سے مرے بد گمان کا
- مغاں مجھ مست بن پھر خندۂ ساغر نہ ہووے گا
- مجھے زنہار خوش آتا نہیں کعبے کا ہمسایا
- کام پل میں مرا تمام کیا
- آیا تھا خانقہ میں وہ نور دیدگاں کا
- ٹک بھی نہ مڑ کے میری طرف تُو نے کی نگاہ
- کس شام سے اُٹھا تھا مرے دل میں درد سا
- ترے عشق میں آگے سودا ہوا تھا
- آہ کے تئیں دلِ حیران و خفا کو سونپا
- گلہ نہیں ہے ہمیں اپنی جاں گدازی کا
- کام میرا بھی ترے غم میں کہوں ہو جائے گا
- یار عجب طرح نگہ کر گیا
- کیا کہیے کہ خوباں نے اب ہم میں ہے کیا رکھا
- سینہ دشنوں سے چاک تا نہ ہوا
- آہ سحر نے سوزشِ دل کو مٹا دیا
- رکھتا ہے ہم سے وعدہ ملنے کا یار ہر شب
- اب وہ نہیں کہ آنکھیں تھیں پُر آب روز و شب
- کس کی مسجد کیسے بت خانے کہاں کے شیخ و شاب
- دیکھ خورشید تجھ کو اے محبوب
- روزانہ ملوں یار سے یا شب ہو ملاقات
- سب ہوئے نادم پئے تدبیر ہو جاناں سمیت
- آنکھوں پہ تھے پارۂ جگر رات
- جیتا ہی نہیں ہو جسے آزارِ محبت
- جی میں ہے یادِ رخ و زلفِ سیہ فام بہت
- کیا کہیں اپنی اُس کی شب کی بات
- آئے ہیں میرؔ منھ کو بنائے خفا سے آج
- کاش اٹھیں ہم بھی گنہ گاروں کے بیچ
- فائدہ مصر میں یوسف رہے زنداں کے بیچ
- کر نہ تاخیر تُو اک شب کی ملاقات کے بیچ
- ہونے لگا گزار غمِ یار بے طرح
- ہوں رہ گزر میں تیرے ہر نقشِ پا ہے شاہد
- نہ پڑھا خط کو یا پڑھا قاصد
- اے گلِ نو دمیدہ کے مانند
- قفس تو یاں سے گئے پر مدام ہے صیاد
- میرے سنگِ مزار پر فرہاد
- ہم بھی پھرتے ہیں یک حشَم لے کر
- پشتِ پا ماری بسکہ دنیا پر
- جھوٹے بھی پوچھتے نہیں ٹک حال آن کر
- زخمِ دروں سے میرے نہ ٹک بے خبر رہو
- ہوتا نہیں ہے باب اجابت کا وا ہنوز
- مر گیا میں پہ مرے باقی ہیں آثار ہنوز
- مجھ کو پوچھا بھی نہ یہ کون ہے غم ناک ہنوز
- خبط کرتا نہیں کنارہ ہنوز
- حرماں تو دیکھ پھول بکھیرے تھی کل صبا
- کیوں کے نکلا جائے بحرِ غم سے مجھ بیدل کے پاس
- مر گیا میں ملا نہ یار افسوس
- ہر جزر و مد سے دست و بغل اُٹھتے ہیں خروش
- پان تو لیتا جا فقیروں کے
- سب سے آئینہ نمط رکھتے ہیں خوباں اختلاط
- ہم اور تیری گلی سے سفر دروغ دروغ
- ٹک کان ہی رکھا کرو فریاد کی طرف
- جو دیکھو مرے شعرِ تر کی طرف
- درد ہی خود ہے خود دوا ہے عشق
- آج کل کاہے کو بتلاتے ہو گستاخی معاف
- آسودگی جو چاہے تُو مرنے پہ دل کو رکھ
- اب وہ نہیں کہ شورش رہتی تھی آسماں تک
- زنہار وفا ہو نہ سکی یار سے اب تک
- میرؔ گم کردہ چمن زمزمہ پرواز ہے ایک
- بالیں پہ میری آوے گا تُو گھر سے جب تلک
- شوق ہے تو ہے اُس کا گھر نزدیک
- دست و پا مارے وقتِ بسمل تک
- میرے قفس کو لے تو چلو باغباں تلک
- خَزَف سے لے کے دیکھا دُرِّ تر تک
- آزردگی یہ چھوڑ قفس ہم سے نہ جاسکے
- بن جو کچھ بن سکے جوانی میں
- فصلِ خزاں میں سیر جو کی ہم نے جائے گُل
- گل کی جفا بھی جانی دیکھی وفائے بلبل
- کیسا چمن اسیری میں کس کو اُدھر خیال
- جانیں ہیں فرشِ رہ تری مت ہال ہال چل
- سیر کر عندلیب کا احوال
- مَندا ہے اختلاط کا بازار آج کل
- کیا کہوں کیا رکھتے تھے تجھ سے ترے بیمار چشم
- کیا بلبلِ اسیر ہے بے بال و پر کہ ہم
- آئے تو ہو طبیاں تدبیر گر کرو تم
- جانا کہ شغل رکھتے ہو تیر و کماں سے تم
- کرتے نہیں دُوری سے اب اُس کی باک ہم
- اگر راہ میں اُس کی رکھا ہے گام
- گرچہ آوارہ جوں صبا ہیں ہم
- حذَر کہ آہ جگر تفتگاں بلا ہے گرم
- نہ پھر رکھیں گے تیری رہ میں پا ہم
- کرتے ہیں گفتگو سحر اُٹھ کر صبا سے ہم
- بیٹھا ہوں جوں غبار ضعیف اب وگرنہ میں
- گزری مدام اس کی جوانانِ مست میں
- کیا ہے خوں مرا پامال یہ سرخی نہ چھُوٹے گی
- لگنے کے لیے دل کے چھڑکا تھا نمک میں نے
- ہم اسیروں کو بھلا کیا جو بہار آئی نسیم
- Mir Taqi Mir